سانحہ کربلا

سانحہ کربلا

محرم الحرام صرف سنِ اسلام کا پہلا ماہ ہونے کہ وجہ سے اہمیت کا حامل نہیں بلکہ دنیا کی ابتدا کا بھی پہلا ماہ ہے کہ 10 محرم کو ہی عرش، زمین ،آسمان،چاند،ستارے،سورج اور جنت کو بنایا گیا، اسی دن حضرت آدم کو پیدا کیا گیا، حضرت ابراہیم بھی اسی دن  پیدا ہوئے اور ان کو آگ سے نجات بھی  10 محرم کو ملی۔اسی دن  حضرت موسی اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات ملی،  حضرت یونس کو اسی دن مچھلی کے پیٹ سے نکالا گیا،10 محرم کو ہی حضرت یعقوب کو بینائی واپس ملی۔لیکن پھر واقعہ کربلا پیش آیا تو اس نے تمام واقعات کو پسِ پشت ڈال دیااور آج 10 محرم کا دن حضرت امام حسین کی عظیم قربانی کے باعث یومِ عاشور کے نام سے جانا جاتا ہے۔حسین وہ جو خود  جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں جن کی والدہ خاتونِ جنت (جنت کی خواتین کی سردار)ہیں، جن کے والد کو خود نبی نے مولا (مولا علی) کا لقب دیا،جن کے نانا دو جہانوں کے سردارہیں  جنہوں نے دینِ اسلام کی بقاء کی خاطر  3 دن بھوکے پیاسے رہ کر اپنے پورے گھر سمیت جامِ شہادت نوش فرمائی۔

  

روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ حضورؐ کی زندگی میں ہی یہ بات عیاں تھی کہ حسین بھوکے پیاسے کربلا میں شہید کردیے جائیں گےاور خود حسین بھی یہ بات جانتے تھے۔ لیکن صبر اور استقامت کا یہ عالم تھا کہ اس قربانی کیلئے ذرا سی بھی لغزش نہ آئی۔کیونکہ  اسلام کی بقاء اور سربلندی کیلئے یہ ضروری تھا۔

امیر معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید تخت نشین ہوا تو اہلِ کوفہ سخت پریشان ہوئے کہ یزید جیسے بد کردار انسان کاتخت پر براجمان ہونا بلا شبہ اسلام کیلئے خطرہ ہے لہذا اہلِ کوفہ نے لاتعداد خطوط کے ذریعے آپ کو کوفہ بلانے پر بہت اصرار کیا  لیکن جب امام کوفہ پہنچے تو اہلِ کوفہ نے اپنا وعدہ وفا نہ کیالہذا امام حسین نے یکم محرم کو میدانِ کربلامیں خیمے نصب کیے۔ ادھر ابنِ زیاد نے ابنِ سعد کو فوج دے کے بھیجا کہ یا حسین سے بیعت لے آو یا ان کا سر تن سے جدا کرلاو اور اس کے جانے کے بعد شمر اور مزید ہزاروں کی فوج کو امام حسین کی طرف بھیج دیا۔ 2محرم کو آپ نے بنواسد سے وہ زمین 60 ہزار دینار میں خرید کر  انہیں حبہ کردیا اور فرمایا  کہ 10 محرم کے بعد آکر  ہماری لاشوں کو دفنا دینا۔فوجوں نے اکٹھے ہوکر خیموں کو گھیرنا شروع کیا اور 7 محرم کو اہلِ بیت پر پانی بند کردیا گیا۔ لیکن ہر ظلم کے باوجود تنہا حسین اپنے موقف پر قائم رہے اور بیعت سے انکاری رہے۔بلاآخر جنگ کا فیصلہ کیا ۔ دورانِ جنگ جب نماز کا وقت آیا تو آپ نے ذہیر کو شمر کی طرف بھیجا کہ نماز پڑھنے کیلئے جنگ روکےلیکن اس نے انکار کردیاتب بھی آپ نے فرمایا نماز نہیں چھوڑی جاسکتی اور حکم دیا کہ آدھے نماز پڑھو آدھے جنگ کرو  اور پھر اسی طرح  باقی  اور لاکھوں کی جنگ کے ساتھ لڑتے ہوئےامام حسین کے جانثار ایک ایک کرکے شہید ہوگئے۔یہاں تک کہ اہلِ بیت میں سے بھی بھائی عباس، شہزادہ علی اکبر،شہزادہ علی اصغر،شہزادہ قاسم  جو کہ حضرت حسن کے صاحبزادے تھے  سب نے ایک ایک کرکے امامِ حسین پر جان قربان کردی۔ بلاشبہ اہلِ بیت کا ہر نوجوان جرات اور شجاعت میں بے مثال تھا شہزادہ قاسم  جب میدان میں اترے توان کی عمر 13 برس تھی   لیکن انہوں نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا جس پر ابنِ سعد نے ارزق پہلوان کو حضرت قاسم سے لڑنے کو کہالیکن اس نے ان سے مقابلے کو اپنی توہین سمجھا اور شہزادہ سے مقابلے کے لئیے اپنے بیٹے کو بھیجا لیکن شہزادہ قاسم نے ایک ایک کرکے اس کے چاروں بیٹوں کو جہنم واصل کردیا جسے دیکھ کر ارزق پاگل ہوگیا اور خود میدان میں اترا جسے شہزادے نے مار گرایا۔ارزق کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ اکیلا 1000 پہلوانوں سے لڑتا تھا ۔کوئی شک نہ تھا کہ اگر امام بادشاہ چاہتے تو ایک بھی کو فی نہ بچتا اور زم زم کا چشمہ رواں ہوجاتا لیکن یہاں مقصد دینِ حق کی سر بلندی، بقا ،صبرو استقامت اور خدا کی رضا تھی۔61 ہجری ظہر کے وقت امام حسین عالی مقام نے جامِ شہادت نوش فرمائی ان کے جسم پر، 73 زخم تھے اور  ان زخموں کے باوجود ان کاسر سجدے میں تھا۔

فرحان سعید خان 

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)