لگڑ بھگڑ لانگ مارچ

لگڑ بھگڑ لانگ مارچ

عمران خان کا لانگ مارچ لاہور سے شروع ہو چکا ہے اور پیپلزپارٹی اسے شارٹ مارچ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ لانگ مارچ ہوتا تو کراچی سے شروع ہوتا۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس دن لانگ مارچ کا تیسرا روز ہو گا اور عمران خان اسلام آباد کی جانب گامزن ہوں گے۔ اس لانگ مارچ کے جو اہداف مقرر کیے گئے تھے وہ تبدیل ہو چکے ہیں اور عمران خان کا بیانیہ بھی یوٹرن لے چکا یے۔ اب وہ اداروں کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا لانگ مارچ پرامن ہے اور وہ حقیقی آزادی کے لیے یہ لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ تو پھر اس لانگ مارچ کا حاصل کیا ہو گا؟ جی ہاں یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ جلد انتخابات۔ صاف اور شفاف انتخابات۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتخابات کون کرائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر پر تو وہ عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں اور ان کے زیر سایہ ہونے والے انتخابات میں وہ کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں ملنے والے ووٹوں نے عمران خان کو اعتماد دیا ہے کہ جتنی جلد انتخابات ہوں گے وہ آسانی کے ساتھ دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں گے اور تاخیر کی صورت میں کسی بھی وقت کوئی حادثہ ان کی منزل دور کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے مقتدر قوتیں ان کے قول و فعل کے تضاد سے بخوبی واقف ہیں اور کوئی رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ وہی عمران خان ہیں جن کا سیاسی سفر صفر سے شروع ہوا تھا اور انہیں پہیے لگا کر حکومت تھما دی گئی تھی اور اب وہ جن بوتل میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان کے لیے حکومت ایک کاروبار بن چکا ہے کہ اتنی دولت انہوں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں کمائی جتنی دولت وزیراعظم بننے کے بعد کمائی ہے۔ گھڑی چور کے نعروں پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ نعرے اب ہر جگہ گھونج رہے ہیں۔ میں ان کے کاروبار کی بات کر رہا تھا تو کون ہے جو اپنے کاروبار کے لیے فکرمند نہیں ہو گا۔ باقی ان کے انقلابی اور انصافی اگر عقل مند ہوتے تو ان کے ساتھ چلتے؟ کہتا ہے کہ لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ اس لانگ مارچ میں شریک ہوں لیکن خود ان کے خاندان کے لوگ کہاں ہیں۔ ان کے حقیقی بچے لندن کے پر فضا مقام پر گولڈ اسمتھ کے دولت کدے پر پرورش پا رہے ہیں۔ ان کی تیسری بیوی کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ وہ دبئی تشریف لے کر جا چکی ہیں۔ گزشتہ دھرنے میں انہوں نے دوسری شادی کی تھی دیکھیں کہیں اس دھرنے میں بھی کوئی شہنائی نہ بج جائے۔ ویسے بھی انہوں نے کہا تھا کہ ان کا لانگ مارچ انٹرٹیمنٹ لے کر آئے گا۔ سو انٹرٹیمنٹ کا سفر جاری رہے گا۔ ویسے بھی خان صاحب ہمیشہ سے انٹرٹینر رہے ہیں اس لیے صاحبان انجوائے کریں۔ جو لے کر آئے تھے ان کو تو انہوں نے خوب لطف دیا ہے اور وہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ ساڈے پیو دی وی توبہ۔
جس شخص کا ماضی صرف اس کی ذات کے گرد گھومتا ہو وہ دوسروں کے لیے کہاں گنجائش پیدا کر سکتا ہے، دوسرے اس کے لیے محض ایک ہتھیار ہیں جنہیں وہ بوقت ضرورت استعمال کرتا ہے۔ میں دانستہ طور پر ٹشو کا لفظ استعمال نہیں کر رہا۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی کا قیام کر دیا ہے۔ کابینہ کی گیارہ رکنی کمیٹی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی قیادت میں تشکیل دی گئی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور بات چیت کے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں جس نے لانگ مارچ کے حوالے سے بات چیت کرنی ہے وہ اس کمیٹی سے رابطہ کر سکتا ہے۔ ویسے بھی وفاقی حکومت نے ابھی تحریک انصاف کو اسلام آباد میں دھرنے کی اجازت نہیں دی۔کمیٹی میں ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ، خالد مقبول صدیقی، میاں افتخار، مولانا اسعد، مریم اورنگزیب، آغا حسن بلوچ، خالد مگسی، حنیف عباسی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد 
چوہدری نے مشروط مذاکرات کی حامی بھری ہے اور کہا ہے کہ جلد انتخابات کا اعلان کیا جائے تو مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اسے حکومت کی چالاکی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ "حکومت کی مذاکرات کی دعوت کی خبریں غیر سنجیدہ ہیں، ایک طرف تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، آزادی مارچ کی کوریج پر پابندیاں ہیں اور دوسری طرف ایک غیر سنجیدہ کمیٹی کی تشکیل کی خبریں صرف آزادی مارچ کو انگیج کرنے کے لیے ہیں، یہ چالاکیاں نہیں چلنی انتخاب کی تاریخ دیں۔ سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن پہلی شرط انتخابات کا اعلان ہے، آپ اعلان کریں کہ الیکشن مارچ یا اپریل میں ہوں گے تو بات ہو جائے گی۔"
عمران کے لیے یہ مارچ ڈو آر ڈائی والا معاملہ بن گیا ہے۔ اس لانگ مارچ کی کامیابی یا ناکامی سے ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ویسے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد ان کے سیاسی مستقبل کی  پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ فوج یہ کہہ رہی ہے کہ انہوں نے ادارہ جاتی سطح پر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں دخل نہیں دے گی لیکن ان کی مداخلت سے نظام جس طرح تباہ و برباد ہوا ہے اس نقصان کو کم کرنے کے لیے اقدامات کو اٹھانے کی ضرورت بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ کفارہ معاملات کو پہلے والی پوزیشن پر لے کر جانے سے ادا ہو گا۔ آپ کی پریس کانفرنس کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہے اور جو ریڈ لائین تھی وہ عمران خان نے عبور کر لی ہے۔ اب مسٹر ایکس مسٹر وائی اور ڈرٹی ہیری سے بڑھ کر وہ نام لے کر کہہ رہے ہیں کہ ان کو ہٹایا جائے۔ عمران خان نے اپنا ہدف اب اس حکومت کو نہیں بلکہ فوج کو بنا لیا ہے اور وہ اس پر برس رہے ہیں۔ اداروں کو متنازعہ بنانے کی ان کی پالیسی وہ آخری کوشش ہے جو اقتدار حاصل کرنے کے لیے وہ کر رہے ہیں۔ اس ملک میں اقتدار کا فیصلہ تین اے کرے ہیں ان میں اللہ امریکہ اور آرمی ہیں۔ اس تکون میں عوام کہیں موجود نہیں۔ عوام محض اقتدار تک پہچنے کے لیے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور سارے ہی سیاستدان ایسا ہی کرتے ہیں۔ کہنے کو اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہوتا ہے لیکن ان نمائندوں کو لانے والے کوئی اور ہوتے ہیں۔ مرحوم عامر لیاقت جب اسمبلی میں ووٹ دینے کے لیے آئے تو ان سے سوال ہوا کہ آپ نے تو عمران خان کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا پھر آپ کیوں آئے ہیں تو انہوں نے برجستہ کہا کہ میں آیا نہیں بلکہ لایا گیا ہو۔ عمران خان کے نظام کو انہوں نے سارے میڈیا کے سامنے ننگا کردیا تھا۔
میں کہہ رہا ہوں کہ فوج کا یہ کہنا کہ وہ سیاست میں حصہ لینے کے گناہ میں اب شریک نہیں ہوں گی بہت ہی احسن فیصلہ ہے اور سب کو اس کی تعریف کرنا چاہیے لیکن جب فوج نے مداخلت کی اور سسٹم پر لگڑ بھگڑ بٹھا دیے اس نے نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اس کی درستگی کیسے ہو گی وہ لگڑ بھگڑ اس نظام کو چلنے نہیں دے رہے۔ ان سے چھٹکارہ دلانے کی کوئی ترکیب بھی تلاش کرنا ہو گی۔ جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تھا جس میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی اس پر نظام جس طرح بے بس کر دیا گیا تھا کیا اس پر کسی نے بات کی ہے کیا اس پر کسی کو سزا کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔ کیا کسی جمہوری نظام میں اس طرز عمل کی کوئی مثال موجود ہے۔ لگڑ بھگڑ کے ہاتھوں میں آپ نے ملک دے دیا اور ان سے کہا کہ نظام کو چلائیں اور اپنے جیسے مزید لے کر آ جائیں تو پھر نظام کیسے چلے گا۔ کون سا ادارہ ہے جہاں پر یہ لگڑ بھگڑ موجود نہیں ہیں۔ وہ نظام کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے سے زیادہ عمران خان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔ 
یہ کیسا حسن اتفاق ہے کہ عمران خان نے پہلے بھی اس وقت دھرنا دیا تھا جب ملک میں سرمایہ کاری آ رہی تھی اور اب بھی وہ ایسے موقع پر اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے ہیں جب چین اور سعودی عرب کی اعلی قیادت نے ملک کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
ریاست کے سربراہ آئینی طور پر صدر ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ عمران خان سے اپنی وفاداری ثابت کر سکیں۔ وہ ملک کے صدر سے زیادہ عمران کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ کس اختیار کے تحت وہ عمران خان اور آرمی چیف کی ملاقاتوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ گند کو صاف کرنے کے لیے کچھ وقت کی ضرورت ہے لیکن اگر اس سے تعفن پھیلنا شروع ہو جائے تو پھر اس گند کو جلد ٹھکانے لگانے کا جتن کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہمیں ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے مندرجات پر سو فیصد اتفاق ہے لیکن یہ سوال بھی اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ادارے کے اندر سے فوج کے سربراہ کی اجازت کے بغیر جو لوگ ملاقاتیں کر رہے ہیں ان کے خلاف ادارے نے اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ کیا لالہ صحرائی نے جنرل باجوہ کی اجازت سے صدر عارف علوی اور تحریک انصاف کے لوگوں سے ملاقات کی ہے۔ نوازشریف کے دور میں ایک کور کمانڈر ذاتی حیثیت میں ملنے گئے تھے تو ان کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا، ویسا ہی سلوک ان کے ساتھ کیوں نہیں ہو رہا۔
پرامن احتجاج کرنا تحریک انصاف کا حق ہے اور جلد انتخابات کا مطالبہ بھی غیر آئینی نہیں ہے لیکن اس سے قبل جو بیانات آئے تھے ان کو کہاں دفن کرنا ہے۔ کیا 25 مئی کے احتجاج میں جو ہوا تھا اس کی سزا کسی کو ہوئی۔ جس ادارے نے انہیں اس مارچ کی اجازت دی تھی وہ تو ان کے دفاع پر اتر آیا تھا۔ کیا یہ نہیں کہا گیا کہ یہ لانگ مارچ سب کچھ بہا کر لے جائے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پرامن احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد یہ لوگ پرامن طریقے سے منتشر ہو جائیں گے اور دارلحکومت کو یرغمال نہیں بنائیں گے۔ نظام کو مفلوج نہیں کریں گے۔ ان پر کس طرح اعتماد کیا جائے اور کیونکر کیا جائے۔