کیا طالبان بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں ؟

کیا طالبان بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں ؟

دو سوالات اس وقت بہت اہم ہیں ۔ پہلا کہ کیا طالبان افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کہا ں کھڑا ہے ؟ آپ کو یاد ہو گا کہ جب اگست میں طالبان نے افغانستان میں دوبارہ اپنی اسلامی امارت قائم کی تو پاکستان کے وفاقی وزراء پھولے نہیں سما رہے تھے ۔کئی وفاقی وزیروں کے بیانات موجود ہیں جس میں انھوں نے دعوی کیا کہ طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کی تمام تر سرمایہ کاری ضائع ہو گئی ہے ۔لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں اس لئے کہ طالبان اس وقت بھارت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔طالبان کی کوشش ہے کہ بھارت کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ جن تر قیاتی منصوبوں پر وہ افغانستان میں کام کر رہے تھے ان پر کام جاری رکھا جائے ۔طالبان حکومت کو اس وقت شدید مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے اس لئے ان کی کوشش ہے کہ بھارت کو اس بات پر بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ ان کی مالی معاونت کریں ۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت اس وقت افغانستان کے معاملے پر امریکی کیمپ میں ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اس خطے کا ایک اہم ملک اوربڑی معاشی قوت بھی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کی حکومت بھارت کے ساتھ بات چیت پر کیوں مجبور ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس خطے میں چین ،روس ،پاکستان ، ترکی او ر کسی حد تک ایران طالبان کے حامی ہیں ۔لیکن ابھی تک یہ تمام ممالک صرف زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا رہے ہیں ۔چین نے اگرچہ اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کریں گے لیکن تا حال وہ طالبان حکومت کو مالی امداد نہیں دے سکا۔ طالبان حکومت کو اس وقت فوری طور پر مالی امداد کی ضرورت ہے تاکہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کر سکیں اور ریاست کے جاری امور کا خرچہ پورا کر سکیں لیکن چین صرف بیانات دے رہا ہے اور عملی طور پر طالبان حکومت کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے ۔ یہی صورت حال روس کی بھی ہے ۔ وہ بھی افغانستان میں امریکی شکست پر خوش ہے ۔ طالبان کا حامی ہے ۔ انھوں نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر یں گے لیکن تاحال وہ بھی طالبان حکومت کو مالی امداد دینے سے گریز کر رہا ہے ۔ترکی بھی طالبان حکومت کا حامی ہے ۔ انھوں نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کی بھرپور مدد کریں گے لیکن ابھی تک وہ بھی مالی مدد نہیں کر سکاجس کی طالبان کو ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے ۔پاکستان اگرچہ کوشش کر رہا ہے ۔ کابل میں اس وقت صرف پاکستان کا سفارت خانہ کھلا ہے ۔ افغانستان کے ساتھ سرحدیں تجارت اور آمدورفت کے لئے کھلی ہیں ۔پاکستان غذائی اجناس بھی افغانستان کو عطیہ کر چکا ہے لیکن اس سب کے باوجود طالبان حکومت کو اس وقت نقد مالی امداد کی ضرورت ہے جس کے لئے کوئی بھی ملک پہل کرنے کے لئے تیار نہیں اور ہر کوئی دوسرے کی طرف دیکھ رہا ہے۔
طالبان نے حامی ممالک کی طرف سے نقد مالی امداد نہ کرنے کی وجہ سے بھارت کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کا آغاز کر دیا ہے ۔بھارت امریکا کا اتحادی ہے ۔لیکن ان کے پاس بہانہ بھی موجود ہے کہ وہ پہلے سے جاری ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ طالبان حکومت کی مدد کر رہے ہیں ۔ لیکن بھارت کو افغانستان میں دوبارہ کام پر راضی کرنا ایک مشکل ٹاسک بھی ہے ۔ مشکل اس لئے کہ بھارت ،افغانستان کے معاملے پر کوئی بھی پیش رفت امریکا کی اجازت کے بغیر نہیں کر یگا۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس خطے میں بھارت کا ذاتی مفاد بھی ہے ۔ چین کے ساتھ ان کا مقابلہ ہے ۔ پاکستان کو ناکام کرنا ان کا ایک مستقل منصوبہ ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کب بھارت کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔اگر وہ بھارت کے ساتھ بات چیت میں کامیاب بھی نہیں ہو جاتے تو ان مذاکرات سے چین اور پاکستان پر دبائو ضرور بڑھے گا کہ وہ فوری طورپر طالبان حکومت کی مالی مدد کریں تاکہ وہ ریاستی امور کو چلا سکیں ۔
اس وقت وثوق کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ چین ،روس ،ترکی اور ایران ،طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنے کے لئے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں لیکن جو بھی کرنا ہوگا ان کو جلدی کرنا ہوگا ورنہ پھر کھیل ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا ۔رہی بات پاکستان کی تو اس وقت اسلام آباد میں خاموشی ہے ۔حکمران جماعت کے تمام کرتا دھرتا حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ دست و گریباں ہے ۔ کینٹ بورڈ انتخابات میں شکست نے ان کو حواس باختہ کردیا ہے ۔بلدیاتی انتخابات ان کے لئے درد سر بنے ہو ئے ہیں ۔ انتخابی اصلاحات اور چیئرمین نیب کی تقرری ایک اور مشکل ہے ۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی پر حزب اختلاف کے احتجاج نے حکومت کو اندرونی مسائل کے حل پر توجہ دینے کے لئے مجبور کردیا ہے ۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اسلام آباد کو جس طرح فکر مند ہو نا چاہئے تھا ۔ جس طریقے سے منصوبہ بندی کی ضرورت تھی ۔ جس طرح سے علاقائی سطح پر لابنگ کی ضرورت تھی اسی طرح اسلام آباد کے منصوبہ ساز اس معاملے پر توجہ نہیں دے رہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ عالمی فورم پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بیانات دے دیتے ہیں ۔ عالمی فورم پر وزیر اعظم عمران خان بھی بات کرتے ہیں ۔عالمی میڈیا کو انٹرویو دیتے وقت بھی وزیر اعظم آواز ضرور بلند کرتے ہیں ،لیکن جس ٹھوس منصوبہ بندی اور زمینی حقائق کو مدنظررکھتے ہوئے لابنگ کی ضرورت ہے اسی طرح کام نہیں ہورہا ۔یہی وجہ ہے کہ حامی ممالک کی طرف سے عملی تعائون نہ ہونے کی وجہ سے طالبان حکومت نے بھارت کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حامی ممالک طالبان حکومت کو مدد فراہم کرتے ہیں یا بھارت سبقت لے جاتا ہے ۔