مولانا فضل الرحمن کی جان کو خطرہ ہے اس سے انہیں آگاہ کردیا گیا ہے‘ وزیر داخلہ

مولانا فضل الرحمن کی جان کو خطرہ ہے اس سے انہیں آگاہ کردیا گیا ہے‘ وزیر داخلہ

اسلام آباد: وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جمعیت علماءاسلام کو آزادی مارچ اور جلسے کی اجازت دے کر ان جماعتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جو مولانا فضل الرحمن کا کندھا استعمال کرکے ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے تھے‘ جمعیت علماءاسلام کو جلسے کیلئے ان کی پسند کی جگہ دی۔

کراچی سے چلنے والے آزادی مارچ کو اسلام آباد تک پانی‘ بجلی اور ٹریفک روٹ سمیت ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئیں‘ مارچ کے شرکاءکی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوئی تو قانون حرکت میں آئے گا‘ مولانا فضل الرحمن کی جان کو خطرہ ہے اس سے انہیں آگاہ کردیا گیا ہے‘ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ جلسہ کے شرکاءکو فول پروف سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔

پی آئی ڈی میں وفاقی وزیرِداخلہ اعجاز شاہ اور وزیراعظم کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ میں نے اسلام آباد میں ہونے والے سیاسی مارچ کی پوری فہرست تیار کی ہے ۔یہ مارچ سکندر مرزا کے زمانے سے شروع ہوئے ۔قاضی حسین احمد کے مارچ کو نہ آنے دیا گیا اور اس میں جانی نقصان ہوا ‘اسلام آباد میں ایک بار سپریم کورٹ پر یلغار ہوئی ۔

عوامی تحریک ، تحریک انصاف اور تحریک لبیک نے اسلام آباد میں مارچ کئے۔ سابق دور حکومت میں جب چوہدری نثار وزیر داخلہ تھے تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی کے پی کے سے ریلی کو اسلام آباد نہیں آنے دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے 19جولائی کو پہلی اے پی سی میں حکومت کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا 3اکتوبر کو مولانا فضل الرحمن نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا چاہئے۔ پہلے مولانا فضل الرحمن کا ایک مطالبہ تھا پھر دو‘ پھر چار اور پھر چھ مطالبات رکھے۔

مارچ یا دھرنا دینا یہ صرف مولانا فضل الرحمن کو معلوم تھا اس کے لئے 27اکتوبر کی تاریخ رکھی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے جب مولانا فضل الرحمن کو عدالتی فیصلے کی روشنی میںمارچ یا جلسے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت وہ لوگ جو مولانا فضل الرحمن کا کندھا استعمال کرنے ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے تھے ان کا منہ بند ہوگیا ۔

انہوں نے کہا کہ ملکی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا کہ حکومت نے اپوزیشن سے احتجاج کے معاملے پر مذاکرات کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی اور کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس جائے اور ان سے پوچھے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کمیٹی جب مولانا فضل الرحمن کے پاس گئی تو ان کا آزادی مارچ اپوزیشن کے مارچ میں تبدیل ہوگیا۔ پھر اپوزیشن نے رہبر کمیٹی بنا دی جب رہبر کمیٹی سے رابطہ کیا گیا تو ایک دن میں دو اجلاس ہوئے اور پھر میڈیا میں آیا کہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔

پھر دوسرے روز حکومتی کمیٹی نے رہبر کمیٹی سے رابطہ کیا اور ان کا اجلاس ہوا۔ اس کے بعد جو سکیورٹی خطرات تھے وہ بھی مولانا فضل الرحمن سے شیئر کئے گئے اور اخبارات میں بھی آئے۔ انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی نے کہا کہ ڈی چوک میں جلسہ کرینگے حکومت نے ان کو پریڈ گراﺅنڈ کی پیشکش کی لیکن رہبر کمیٹی کی طرف سے کہا گیا کہ ان کو پشاور موڑ دیا جائے پھر انتظامیہ نے جمعیت کی مقامی قیادت کو جلسہ گاہ کی جگہ دکھائی تو اس کو انہوں نے قبول کرلیا جو اتفاق رائے سے ہوا اور معاہدہ ہوا اس کے پانچ نکات تھے اس کے بعد ایک ضابطہ اخلاق پر دستخط ہوئے جس کے 37 نکات ہیں حکومت نے مولانا فضل الرحمن سے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق حکومت نے مارچ کو سہولیات فراہم کرنا تھی اور اعلان کیا تھا کہ وہ اس کو نہیں روکیں گے چاہے وہ سمندر سے شروع کریں‘ جہاز سے شروع کریں یا دوبئی سے شروع کریں۔

چار روز کے مارچ میں 20سے 25ہزار لوگ سندھ سے چلتے ہوئے گوجر خان پہنچ چکے ہیں۔ حکومت نے ان کو سہولیات فراہم کی ہیں پانی‘ بجلی اور ٹریفک پلان دیئے روات سے ایکسپریس ہائی وے سے فیض آباد اور وہاں سے نائنتھ ایونیو سے کشمیر ہائی وے اور پھر جلسہ گاہ پہنچ جائیں گے۔ مولانا کا کنٹینر انتہائی مہنگا ہے اس کے لئے بھی ایک الگ روٹ بنایا تاکہ اس کو جھٹکا نہ لگے اور اس کی کوئی کمانی نہ ٹوٹ جائے۔ جلسہ گاہ میں صفائی کی گئی ہے پانی‘ بجلی اور واش روم کی جگہ دی گئی جلسہ گاہ میں تمام تر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ جب شرکاءجلسہ گاہ پہنچ جائیں گے تو پھر ان کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرینگے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر کوئی پکڑنے والا کام کرے گا تو پکڑ لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میرے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات ہیں ۔مولانا کے آتے ہی ان سے پوچھوں گا کہ وہ کب تک ٹھہریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ صحافیوں سے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں وہ کیوں آرہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ میں کیا ایسا کروں جس سے معلوم ہوگا کہ میں گھبرایا ہوا نہیں ہوں۔کیا میں ڈانس کرنا شروع کردوں۔ یہ بنانا ریپبلک نہیں۔ میں اچھے ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا وزیر داخلہ نے استفسار کیا کہ کون گھبرایا ہوا ہے ؟ جو ڈر گیا وہ مرگیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے نوازشریف کی صحت سے متعلق بیانات سے منع کیا ہے نوازشریف کا نام ای سی ایل پر ہے ‘سیاست اور احتساب ایک طرف ہے جبکہ صحت اور زندگی ایک طرف ہے اللہ تعالی سب کو صحت اور زندگی دے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تصادم ہوگا تو اگلا وزیراعظم بھی عمران خان ہوگا۔

یہ آزادی مارچ نہیں مولانا کا مارچ نہیں ہے ۔ بلوچستان کے لوگوں سے افغانستان کی پانچ غیر رجسٹرڈ گاڑیاں پکڑی گئی ہیں۔ مولانا کے مارچ میں جب ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگی قانون حرکت میں آئے گا۔