کہانی ختم

کہانی ختم

تحریک عدم اعتماد سے پارلیمنٹ کے اندر نمٹنے کے بجائے وزیر اعظم عمران خان کا سارا زور معاملہ لٹکانے پر تھا ۔ اسی دوران اسلام آباد میں ‘‘ تاریخ کا سب سے بڑے جلسے ‘‘ کا اعلان کیا گیا تو یہ تاثر دیا گیا کہ تقرریوں اور بر طرفیوں کی حوالے سے بڑے اہم اعلانات ہوسکتے ہیں ۔ لوگ کان لگائے بیٹھے رہے مگر کچھ برآمد نہ ہوسکا ۔ وہی روایتی تقریر اور ایک نامعلوم خط کا ذکر کرکے سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان سطور کی اشاعت تک بھی یہی سودا بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لیکن ان کے چند حامیوں کے سوا کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ دنیا میں وہ کون سی طاقت اور کونسا ملک ہے جو یہ نہیں جانتا کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کا اپنا کردارہے ہی کتنا ۔ ان کے دائیں بائیں موجود وزرا صحافیوں تک تو بتانے سے نہیں ہچکچاتے کہ ان کے تقرر کا فیصلہ وزیر اعظم نے نہیں کیا بلکہ وزارت طے کرنے کے بعد انہیں آگاہ کیا کہ یہ صاحب فلاں محکمے کے وزیر ہونگے ۔ خارجہ پالیسی کے حتمی فیصلے کہاں ہوتے ہیں یہ سب کو پتہ ہے ۔ خط کا ڈرامہ زیادہ دیر تک نہیں چلنے والا ۔ آزاد تجزیہ کاروں کو یقین تھا کہ وزیر اعظم ایک چھوڑ سو جلسے اور کرلیں کوئی سرپرائز نہیں آنے والا ۔ اس قسم کے سرپرائز دینے کے لئے غیر معمولی جرأت درکار ہوتی ہے ۔ عمران خان کی اب تک کی تو ساری سیاست ہی ان ہاتھوں کی مرہون منت ہے جن میں آکر کوئی بھی خود کو محفوظ تصور کرتا ہے ۔جلسے کے اگلے ہی دن پنجاب سرنڈر کرکے ایک ’’ سرپرائز ‘‘ ضرور دیا گیا ۔ اپنے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کو فارغ کرکے پنجاب ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کے حوالے کردیا گیا ۔ بتایا گیا ہے کہ خود وزیر اعظم نے اپنی حکومت بچانے کے لئے بھی ق لیگ کو کچھ ٹاسک سونپے ۔سیاست کے امام سمجھے جانے والے چودھری ابھی وزارت اعلیٰ کی شیروانی بھی تیار کرا نہیں پائے تھے کہ خود عمران حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا گیا ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے اپوزیشن کی حمایت کے بعد اب اعدادوشمار بالکل واضح ہیں کہ پی ٹی آئی سرکار فارغ ہوچکی ۔ چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کا باب بھی بند ہوچکا ۔ دلچسپ بات ہے کہ جب جنرل شجاع پاشا نے پی ٹی آئی کو نیا جنم دینے کا فیصلہ کیا تو بندے شامل کرانے کے لئے سب سے زیادہ وار ق لیگ پر ہی کیے گئے ۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کے گھر جاکر جنرل پاشا کی شکایت کی ۔ آڈیو شواہد بھی پیش کئے ۔ جنرل کیانی نے دونوں کو تسلی دے کر بھیج دیا مگر کام جاری رہا اور ق لیگ ، پی ٹی آئی میں تبدیل ہوگئی ۔ دوسرا سب سے زیاد ہ نقصان پیپلز پارٹی کو پہنچا ۔ اس کا ووٹ بنک پی ٹی آئی کو منتقل ہوگیا ۔ اب بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی پنجاب میں متحرک ہوئی ہے تو جیالوں کی واپسی شروع ہوگئی ۔ فارمولا تو یہی بنتا تھا کہ اگر پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن جاتے تو ہی پی ٹی آئی میں جانے والے ارکان اسمبلی بھی واپس ق لیگ کا رخ کرلیتے تاکہ اگلے انتخابات تک کسی اتحاد کا حصہ بن کر میدان میں اتر سکیں ۔ دیکھنا ہوگا کہ اب ق لیگ اپنی سیاست کو کیسے آگے بڑھاتی ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کی آفر قبول کرکے جو سیاسی بلنڈر کیا گیا اس کا مداوا آسان نہیں ہوگا ۔ یہاں اس تاثر کی وضاحت ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بظاہر وزیر اعظم عمران خان کے ہی نمائندے تھے مگر ان سے ہر کوئی خوش تھا ۔ چھوٹے رینک کے افسر بھی آسانی سے کام کرا لیتے تھے ۔ اسی لئے اسٹیبلشمنٹ نے کبھی بزدار کو ہٹانے کی کوشش نہیں کی ۔ اتنا ضرور تھا کہ یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ پنجاب کے لوگوں کی طرح مقتدر حلقے بھی بزدار 
کی کارکردگی سے خوش نہیں ۔ مگر یہ سب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تھا ۔ سادہ سی بات ہے حکمران اشرافیہ کو عوامی مسائل اور مشکلات سے کبھی کوئی دلچسپی رہی ہی نہیں ۔ لیکن جیسے ہی ان کے اپنے مفادات اور سہولتوں پر اثر پڑنے لگے تو وہ ایکشن لینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے ۔ تحریک عدم اعتماد کے اس شور شرابے میں مخصوص میڈیا پرسنز یہ کہہ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان کو اپنی پارٹی میں الیکٹ ایبلز ( اپنے زور بازو پر جیتنے والے امیدوار ) نہیں لینے چاہئیں تھے ۔ یہ حقائق کے بالکل برعکس ہے ، سچ تو یہ ہے کہ ایسے الیکٹ ایبلز کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر زبردستی پی ٹی آئی  میں لایا گیا اور مرمر کر حکومت بنانے کا موقع ملا ۔ دھاندلی بھی اتنی کرنا پڑی کہ تمام اداروں پر ایسی تنقید شروع ہوگئی جو آج بھی کم و بیش اسی شدت سے جاری ہے ۔ دیگر اور بہت ساری وجوہات کے ساتھ یہ مسلسل بدنامی کا خدشہ بھی ایک بنیادی وجہ ہے کہ منصوبہ ساز کسی حد تک نیوٹرل ہوکر بیٹھے ہیں ۔ اس ماحول میں ایسا بھی ہوا کہ بعض اپوزیشن جماعتوں سمیت اشاروں پر چلنے والی سیاسی پارٹیوں کو سمجھ نہیں آئی کہ آگے کیا کرنا ہے ۔ کہنے والے تو کہتے ہیں بعض دوسرے اداروں میں بعض ایسے عہدیداروں کو بے چینی کا سامنا ہے جو اپنے کسی عمل کے لئے سگنل کے منتظر رہتے  ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان اس وقت سخت دبائو کا شکار ہیں ۔ اسی کیفیت میں یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن میں بیٹھے نواز شریف ججوں کو خرید رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں ایک اور کیس کی سماعت کے دوران جب جج صاحبان نے اس حوالے دریافت کیا تو پہلے حکومت سے کوئی جواب نہیں بن پڑا ۔ اگلے روز اٹارنی جنرل نے انوکھا مؤقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کا اشارہ 1997 کے واقعات کی طرف تھا ۔یہ اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ اگر اس وقت ججوں کی خریداری کی گئی تھی تو اس کے بعد آنے والی کئی حکومتوں میں کسی ایک نے بھی اس کی تحقیقات کیوں نہیں کرائیں ؟ کیا آج تک کچھ ثابت ہوسکا ۔ خیر الزامات کی سیاست تو ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی ۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اقتدار جانے کی صورت عمران خان واقعی سڑکوں پر آکر خطرہ ثابت ہوں گے ۔ ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار جاتے ہی آزمائشیں گھیرائو کرلیتی ہیں ۔ اگرایسی صورتحال پیدا ہوئی تو عمران خان کوبھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں وزیر اعظم کے حالیہ لب و لہجے اور باڈی لینگوئج سے چھلکتی مایوسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اقتدار جانے کی صورت میں پیش آنے والے حالات کے بارے میں بے تحاشہ خدشات ہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو یقیناً عمران خان کے خدشات بے جا نہیں ۔حکومت وقت کارروائیاں شروع کردے تو ایسی صورت میں پارٹی سنبھالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس وقت پی ٹی آئی کے حامی بہت جذباتی ہورہے ہیں ۔ ایکس سروس مین سوسائٹی تو ’’ توپیں ‘‘ لے کر میدان میں ہے ۔ ان سب کے اخلاص ، ’’ جذبہ ایمانی ‘‘ اور نیا پاکستان بنانے کی لگن کا پتہ تو تب چلے گا جب حکومت نہیں رہے گی ۔ اب تک کے نتائج کے مطابق متحدہ اپوزیشن نے متحرک ہوکر آدھی جنگ جیت لی ہے ۔ پنجاب اسمبلی میں صرف تحریک اعتماد آنے کی دیر تھی کہ کپتان نے اپنے فیورٹ کھلاڑی عثمان بزدار کی قربانی دے دی ۔ یوں یہ اعتراف کرلیا کہ پی ٹی آئی پنجاب میں اپنی حکومت بچانے میں ناکام ہوگئی ۔ اس وقت پی ٹی آئی وفاق اور کے پی کے تک محدود ہو چکی ہے ۔ یہ طے یہ کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو کے پی کے حکومت کا بھی دھڑن تختہ ہو جائے گا ۔ اب قوم سے کوئی خطاب ، کوئی بیانیہ کام نہیں آنے والا ۔ اپوزیشن جماعتوں کو ہرگز یہ خوف نہیں کہ جب وہ حکومت میں آئیں گے تو عمران خان یا ان کے حامی کسی قسم کا خطرہ ثابت ہوں گے ۔ سکہ بند سیاستدان ہی نہیں آزاد تجزیہ کار یہی بھی رائے رکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بھی اسی طرح پگھل جائے گی جیسے جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد ق لیگ تحلیل ہوگئی تھی  ۔ اپوزیشن کی تقریباً تمام جماعتیں عمران حکومت کی انتقامی کارروائیوں اور الزامات کا نشانہ بن چکی ہیں ۔ اب وہ بھی وزیر اعظم عمران خان کے متعلق ایسی ہی سوچ رکھتی ہیں ۔ عمران خان کے مخالفین حکومت میں آگئے تو انہیں آسانی سے محفوظ راستہ نہیں ملے گا ۔ ہوسکتا ہے کسی کو بیچ میں پڑ کر این آر او دلوانا پڑے ۔ اس طرح کے واقعات ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ لگ رہا ہے ایک بار پھر یہی منظر دہرائے جانے میں زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔اس بات کے آثار نہیں کہ اگلی حکومت کے خلاف فوری طور کوئی تحریک چل پائے گی ۔ پی ٹی آئی کے حامیوں سمیت جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار سے اترتے ہی عقاب بن کر مخالفین پر جھپٹ پڑیں گے ان کی غلط فہمی بھی جلد دور ہوجائیگی ۔ عمران خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اتنے دلیر ہیں جب انہیں ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنے سے روکا گیا تو ’’ حکم ‘‘ کی تعمیل میں بالکل دیر نہیں لگائی ۔ ویسے بھی ان کے پاس وہی گھسی پٹی باتوں کے کہنے کو رہ ہی کیا گیا ہے ۔جاتے جاتے کوئی خطاب کر بھی گئے کونسا پہاڑ سر کرلیں گے ؟ اقتدار کے ان آخری لمحات میں اگرانہوں نے اپنے طور پر یا اپنی پارٹی کارکنوں کے ذریعے کوئی مس ایڈونچر کرنے کی کوشش کی وہ تو اپنے خلاف آئندہ دنوں بننے والے مقدمات میں ایک اور کا اضافہ ہی کرائیں گے ۔

مصنف کے بارے میں