ڈپریشن

ڈپریشن

ہمارے اجتماعی اْفق پر ڈپریشن کی تیرگی کسی سموگ کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ ہمارا انفرادی اور اجتماعی منظر ڈپریشن کی اس دھند میں دھندلا سا گیا ہے۔ جسے دیکھو وہ کسی نہ کسی حوالے سے ڈپریشن کے حوالے ہو چکا ہے۔ نفسیاتی کلینک جگہ جگہ کھل گئے ہیں۔ طرح طرح کے نسخے تجویز کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے مصلحین اور مبلغین بشمول ماہرین نفسیات اپنے سامعین و حاضرین کو ڈیپریشن کی فضا سے نکلنے کے نت نئے فارمولے اور مراقباتی مشقیں بتلا رہے، جبکہ حال یہ ہے کہ مرض اور مریض اسی حال میں پڑے ہیں — یعنی برے حال میں۔ جب ڈپریشن کا معاملہ ایک خاص حد سے آگے بڑھتا ہے تو سائکیٹرسٹ کی خدمات لی جاتی ہیں۔ وہ اپنا حقِ خدمت وصول کرنے کے بعد چند ادویات لکھ دیتا ہے اور دوبارہ ان ہی ماہرینِ نفسیات کے پاس بھیج دیتا ہے جن کی ماہرانہ مشاورت نے قبل از ایں کچھ کام نہ کیا تھا۔ معلوم نہیں، فیس وصول کرنے کے بعد نسخے میں تاثیرِ شفا باقی رہتی ہے یا نہیں — یہ معمہ ہنوز دریافت طلب ہے۔ جس خدمت کا خدمتانہ وصول کر لیا جائے وہ عملی طور پر ایک کاروبار بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں، ذوقِ  کاروبار اور چیز ہے اور کاروبارِ ذوق اور چیز!! 
یوں ہے کہ ذوق اندروں ہے، دروں ہے، جبکہ کاروبار کا لین دین بیرون ہے، بروں ہے!!مسئلہ اندر ہو تو اس کا حل باہر کیسے دریافت ہو؟ دلچسپ حکایات میں ہے کہ ایک مرتبہ ملّا نصیرالدین رات کے وقت گلی میں کھمبے پر نصب چراغ کی روشنی میں زمین پر جھک کر کچھ تلاش کررہے تھے۔ لوگوں نے پوچھا، کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ کہنے لگے، میری سوئی گم ہو گئی ہے، وہ تلاش کر رہا ہوں۔ پوچھا گیا، سوئی کہاں گم ہوئی تھی؟ ملّا نصیرالدین نے کہا، گھر میں۔ لوگوں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ گھر میں کیوں نہیں تلاش کی؟ ملّا جی معصومیت سے بولے، دراصل گھر میں روشنی نہیں تھی۔ ملّا نصیرالدین کا کردار قصے کہانیوں میں ایک مضحکہ خیز شخصیت کے طور معروف ہے لیکن کہانیوں کے اسباق سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ محترم نصیرالدین اپنے زمانے کے ملامتی درویش تھے۔ وہ خود پر ملامت مول لیتے ہوئے، اپنا ٹھٹھہ بناتے ہوئے، لوگوں میں خود کو احمق کہلواتے ہوئے، عام عوام کو انتہائی گہری حکمت کی بات بتا دیتے تھے۔ بات یہ ہے کہ  جو بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی،ہم یا تو اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، یا اسے ایک  لطیفہ سمجھتے ہوئے ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ لطیفے سے لطائف پیدا کرنا ایک کارِ حکمت ہے — ایک حکیم ہی کا کام ہے۔
حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں "پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے" کس قدر عظیم ہے یہ قولِ حکمت—اس کی 
قدر بس وہی دریافت کریں جو کسی منزل بے نام کے راہی ہیں، جو کسی خیال کے سفر میں گم ہیں۔ اس قول نے بہت سوں کی فکر کا قبلہ راست کیا ہے۔ جس طرح اس  کائنات کے درست منظر کو دیکھنے کے لیے ہمارے پاس آنکھ کا عدسہ  میسر ہے، اسی طرح کسی منظر کے معنویت تک پہنچنے کے لیے ہمارے پاس میسر فیکلٹی کا نام خیال ہے۔ انسان کی آنکھ میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو باہر کا منظر تاریک ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ میں موتیا اتر آئے تو باہر رنگ رنگ کے گلاب بھی نظر نواز نہیں ہوتے۔ یہی حال خیال کا ہے۔ خیال میں کوئی ٹیڑھ پیدا ہو جائے، خیال کو کوئی عارضہ لاحق ہو جائے تو زندگی کی معنویت اپنی جگہ موجود ہونے کے باوجود ہمیں موصول نہیں ہو پاتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور رونقِ حیات میں میسر آنے والے افراد کی قدر و قیمت سے آگاہی ہمارے خیال کی صحت کے حسبِ حال ہے۔خیال اگرچہ اپنی ہیتِ اصلیہ میں ایک روحانی اصطلاح ہے، لیکن فی الوقت عام فہم انداز میں ہم اسے اندازِ فکر سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ اندازِ فکر بدل جائے تو منظر کی ہیت ہی بدل جاتی ہے۔ عین ممکن ہے ستم کرم محسوس ہونے لگے، اندازِ ستم عشوہ محبوب لگے، اور عام فہم "کرم" قرب سے بْعد کی صورت معلوم ہونے لگے۔ جس طرح مورخ کے بدلنے سے تاریخ بدل جاتی ہے، اس طرح اندازِ فکر کے بدل جانے سے زندگی بدل جاتی ہے۔ 
اولیاء اللہ کے لیے "لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون" کا مڑدہ ہے۔ کیا اولیاء  مشکلات سے نہیں گزرتے؟ کیا ان کی زندگی پھولوں کی سیج ہوتی ہے؟ کیا وہ جان مال اور ناموس کے نقصان سے مامون ہوتے ہیں؟ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا نہیں — وہ شاید ایک عام کلمہ گو کی نسبت زیادہ دشوار گزار راستوں سے گزارے جاتے ہیں — لیکن کیا وجہ ہے کہ آغازِ سفر ہی میں انہیں لاخوف اور لایحزنوں کا تمغہ بسالتمل جاتا ہے۔ خوف کسی آنے والے ممکنہ ناپسندیدہ واقعے کا ہوتا ہے، حزن کسی گزرے ہوئے ناپسندیدہ واقعے پر ہوتا ہے۔ وہ خوف اور حزن دونوں سے نجات یافتہ ہیں — اس لیے انعام یافتہ ہیں۔ انہیں وہ اندازِ فکر حاصل ہے، جو انہیں صبر اور پھر اسی صبر پر شکر کی نعمت سے مالا مال کرتا ہے۔ انہیں خیال کا نور الہام کیا گیا ہے جس کی روشنی میں وہ منشائے خداوندی کو ہر واقعے میں کارفرما دیکھتے ہیں، وہ اپنی رضا سے دستبردار ہو چکے ہیں، اس لیے ان کے لیے رب کی رضا کو قبول کرنا آسان ہو گیا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے فرمایا ہے کہ تماری مرضی اور اللہ کی مرضی کے درمیان فرق کا نام غم  ہے۔ یہ غم غمِ دوراں ہے۔غم جاناں عطیہ خداوندی ہے!! 
اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے والا اپنی مرضی کی کائنات دیکھنا چاہتا ہے، ظاہر ہے یہ کائنات نامکمل بھی ہوتی ہے اور ناموزوں بھی۔ اس کا نظارہ اس کے لیے گھٹن پیدا کر سکتا ہے، اس سانس روک سکتا ہے۔ مالکِ حقیقی کی کائنات حقیقی کائنات ہے، روشن، وسیع و عریض — اس میں کوئی رخنہ نہیں، اس میں کوئی خلل نہیں —  یہ ردھم میں ہے، ہر آن دلکش ہے، اس کی ہر تان مدھر ہے—بس اسے دیکھنے سے ہی، اسے سننے سے ہی سارے غم جاتے رہتے ہیں۔ وادء حیرت میں گم ہوتے ہی سارے غم گم ہو جاتے ہیں۔ اتنی خوبصورت حسنِ ترتیب سے آراستہ کائنات کے نظارے میں محو انسان اپنی مرضی کجا اپنی رائے دینے سے بھی دست کش ہو جاتا ہے۔ 
پانچ ہزار برس ہونے کو آئے ہیں، گوتم بدھ کا دیا ہوا کلیہ انسانی فکر پر آج بھی اسی طرح لاگو ہے۔ اس نے انسان کو یہ بدھی دی تھی کہ تمہارے دکھ کا سبب تمہاری خواہش ہے۔ گویا خواہش اور سکون ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ظاہر ہے، ایک وقت میں انسان  ایک ہی چیز حاصل کر سکتا ہے۔ ایک ساتھ آگ اور پانی کا ساتھ ناممکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک آسودہ خواہش بھی انسان کو ویسے ہی بے چین رکھتی ہے جس طرح ناآسودہ خواہش بے کل رکھتی ہے۔ خواہش پوری ہوتے ہی ایک نئی خواہش بیدار ہوتی ہے اور پھر اس کے حاصل کے لیے ایک نیا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ناآسودہ خواہش انسان کو مضطرب رکھتی ہے۔ اگر اس اضطراب کو درست سمت دینے کے لیے کوئی قبلہ نما راہنما میسر آ جائے تو یہ اضطراب ایک مضراب کا کام کرتا ہے۔ سوزِ دل ایک نغمہ بن کر باہر نکلتا ہے، بصورتِ دیگر اندر شور بپا ہوتا ہے اور باہر شورش!!
انسان کے ڈیپریشن کی دوا انسان ہی ہے۔ خواہش کے ہنگم پھیلاؤ نے انسان کو انسان سے دْور کر رکھا ہے۔ خواہش نے اسے خود غرضی میں مبتلا کر دیا اور خود غرض بالآخر تنہا رہ جاتا ہے۔انسان خواہش کی الجھی ہوئی ڈور کو سمیٹ لے — لذتِ وجود اور ہوسِ زر پر قابو پالے — تاکہ اسے ایک دوسرے کے قریب ہونے کا وقت اور موقع میسر آ سکے۔خواہش کی ابتلا میں اسیر کبھی مبتلائے محبت نہیں ہوتا۔ خواہش اسے باہر کی دنیا میں ایسا مصروف رکھتی ہے کہ وہ خدمت محبت اور عبادت سے دور ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کی ضد امید ہے۔ خواہش اور امید میں فرق ہے— خواہش مایوس کرتی ہے، امید مایوس نہیں کرتی۔ ڈپریشن میں مبتلا کا حل یہ ہے کہ وہ دوسروں کی ڈپریشن دور کرنے کی تدبیر کرے۔ جس طرح دوسروں کی غربت دور کرنے والا خود غریب نہیں رہ سکتا، اس طرح دوسروں کو ڈپریشن سے نکالنے والا بھی ڈپریشن میں نہیں رہے گا۔  
خدمت، عبادت اور محبت میں مصروف انسان کے پاس ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی فرصت ہی نہیں ہوتی۔