بات کہاں سے شروع کریں …!

بات کہاں سے شروع کریں …!

گزشتہ پانچ ، چھ عشروں یا اس سے بھی کچھ زائد عرصے کے دوران ملک و قوم کو درپیش گونا گوں مسائل اور مشکلات اور ہر طرح کی اونچ نیچ کو قریب سے دیکھنے، جاننے ، سننے ، پڑھنے ,پرکھنے اور اپنی بساط کے مطابق ان کا ادراک حاصل کرکے ان سے گہرا اثر قبول کرنے کے باوجود ملک و قوم کے مستقبل کے بارے میں کبھی بھی اس طرح کی مایوسی دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی جو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جناب عمران خان کی "مہربانیوں اور نوازشات"کی وجہ سے ملک کو درپیش غیر یقینی صورت حال اور اس کی سلامتی ، خود مختاری اور وقار کو ہر گام بڑھتے خدشات اور خطرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں اور نہ ہی کوئی خود نمائی ہے کہ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے کے ابتدائی برسوں سے لیکر ابتک کے تقریباً 60، 62سال کے حالات و واقعات ذہن کے نہاں خانے میں کچھ نمایاں اور واضح اور کچھ مدہم اور دھندلی یادوں کی صورت میں موجود ہیں۔ ان کو کرید کر یا یاد کرکے موجودہ دور کے حالات و واقعات کا ان کے ساتھ اگر موازنہ یا مقابلہ کریں تو بلاخوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک و قوم ماضی کے مقابلے میں آج زیادہ بدتر صورت حال اور تنزلی کا شکار نظر آتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کبھی یہ سوچا تک بھی نہیں تھا کہ ملک و قوم کا مستقبل اس طرح دائو پر لگا ہوا دیکھائی دے گا جیسے آج کل دکھائی دے رہا ہے۔ قومی زندگی کے کسی بھی شعبے کو لیں تقریباً ہر شعبے میں ہم تنزلی اور گراوٹ کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ بات اگرچہ تلخ ہے لیکن حقائق پر مبنی ہے کہ پہلے بھی ملک و قوم کے حالات کچھ ایسے اطمینان بخش اور زیادہ مثبت رویوں کے حامل نہیں تھے لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے چار سال کے دوران جناب عمران خان سمیت حکمران اشرافیہ کی نا اہلی ، نالائقی ، بیڈ گورنس، ضد، ہٹ دھرمی اور منفی انتقامی سوچ نے قومی منظر نامے کو اتنا دگرگوں کر دیا ہے کہ اس سے قبل پچھلے چھ سات عشروں کے دوران اس طرح کی صورت حال کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی ۔ 
میں سوچتا ہوں کہ بات کہاں سے شروع کی جائے اور کس کس شعبے کی تنزلی اور گراوٹ کا رونا رویا جائے۔ یہ سامنے کی بات ہے اور ہر کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ ملک اس وقت اس حد تک اقتصادی اور معاشی بد حالی کا شکار ہو چکا ہے کہ اس کے دیوالیہ ہونے کے آثار سامنے آنے لگے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جاری کرانے کے لیے اس کی شرائط کو پورا کرنا، پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرکے ان کی قیمتوں کو بڑھانا ، بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ کرنا، دوست ممالک سے قرضوں یا امداد کے حصول میں ناکامی ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ اور اس کا 200روپے کی حد کو عبور کرنا، ہوشربا مہنگائی اور اشیاء صرف کی قیمتوں کا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونا، افراط زر میں زیادتی ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور شرح نمو میں مطلوبہ حد تک اضافہ نہ کر سکنا اور اس کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ایسے عوامل اور اسباب و علل ہیں جن کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچی ہوئی ہے۔ بلاشبہ اس میں تحریک انصاف کے دور حکومت کی ناقص پالیسیوں اور 
حکمران اشرافیہ کی نااہلی کا بڑا عمل دخل ہے۔ 
یہ قومی زندگی کے ایک پہلو یا شعبے کی داستان ہے ، دیگر شعبوں میں حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ فوج کے ساتھ تعلقات کو ہی لے لیا جائے پہلے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا کہ ہم ایک پیج پر ہیں لیکن آرمی چیف کی طرف سے معمول کی کچھ تقرریوں اور تبادلوں کے معاملات جن میں آئی ایس آئی کے سابقہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ان کے عہدے سے ہٹا کر کور کی کمانڈ سونپنا اور ان کی جگہ نئے آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر شامل تھا ، کا معاملہ سامنے آیا تو آرمی چیف کے ساتھ خواہ مخواہ کی ٹانگ اڑا لی گئی ۔ اس طرح ایک پیج پر ہونے کی دعوے ہی فضا میں نہ بکھرنا شروع ہو گئے بلکہ غیر ضروری بیان بازی کے ذریعے ایسی فضا بنا دی گئی جس سے باہمی اعتماد کے رشتوں کو بھی بری طرح ٹھیس پہنچی ۔ یہاں تک شاید پھر بھی گوارا سمجھا جا سکتا تھا لیکن جب متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ کیا اوراس موقع پر عسکری قیادت کی طرف سے اپنے آپ کو سیاسی معاملا ت سے دور رکھنے اور غیر جانبدار یا نیوٹرل رہنے کی پالیسی سامنے آئی تو باوجود اس حقیقت کے کہ عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد اور تعاون سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور ایک لحاظ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مرہون احسان تھے کہ ہر 
موقع پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کا بھرپور ساتھ دیکر ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی، جناب عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے ان باتوںیا احسانات کو بھلا کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا عسکری قیادت بالخصوص آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ہر طرح کے طعنے عسکری قیادت کو دیئے جانے لگے ۔ کبھی جانور نیوٹرل ہوتا ہے کہہ کر پکارنے لگے ، کبھی سپہ سالار کے نام کے ساتھ میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کے نام جوڑنا شروع کر دیئے۔ غرضیکہ ہر منفی ہتھکنڈہ جو استعمال کیا جا سکتا ہے اس سے بروئے کار لایا گیا اور اب بھی لایا جا رہا ہے۔ 
اگر دیکھا جائے تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا مستقل ریاستی اداروں کا مسئلہ یا سب سے بڑی ذمہ داری ریاست کا استحکام اور ریاستی اداروں کی مضبوط حیثیت کو برقرار اور قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ان کے لیے یہ امر کسی صور ت میں روا نہیں ہو سکتا کہ وہ حکومت وقت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات یا فیصلوں میں اس کی مدد کریں یا ہر معاملے میں آمنا اور صداقنا کہیں۔ جناب عمران خان اپنی مخصوص افتاد طبع ، اپنی انا پرستی اور کسی حد تک اپنی آمرانہ سوچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس بات کے خواہاں رہے ہیں کہ انہیں مستقل ریاستی اداروں خواہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہو ، سول بیورکریسی ہو یا اعلٰی عدلیہ ہو ان کی طرف سے بلاچوں و چراں ہر طرح کی حمایت اور تائید حاصل رہے۔ مارچ کے شروع میں قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے اور اس کی کامیابی کے امکانات سامنے آنے کے بعد جناب عمران خان کی پوری کوشش رہی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح ان کی مدد کو آئے اور اس کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے بھی ان کے ہر طرح کے اقدامات کو خواہ وہ کتنے ہی غیر قانونی اور غیر آئینی کیوں نہ ہو تحفظ حاصل رہے۔ لیکن اس موقع پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اپنانے پر جناب عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اپنی توپوں کا رخ عسکری قیادت کی طرف کر دیا۔ اس کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ بھی ان کی تنقید کی زد میں آگئی کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کو غیر قانونی قرار دینے کی رولنگ کو مسترد کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرانے کا فیصلہ سنا دیا۔اس کے بعد 9اپریل کی رات کوقومی اسمبلی اور وزیر اعظم ہائوس میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے تاہم جناب عمران خان نے اپنے عوامی جلسوں میں چیخ چیخ کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ میں نے کونسا جرم کیا تھا کہ آدھی رات کو میرے لیے عدالتیں کھل گئیں۔ خیر یہ ایک طویل داستان ہے لیکن اس وقت برسر زمین حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے بعض معززجج حضرات جناب عمران خان کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں کہ انھوں نے آئین کی دفعہ 63Aکی تشریح کے حوالے سے دائر کردہ صدارتی ریفرنس کا فیصلہ جناب عمران خان اوران کی جماعت کی مرضی اور منشا کے مطابق دیا ہے تو اس کے ساتھ ان کے 25مئی کے احتجاجی مارچ کے حوالے سے فیصلے میں بھی جناب عمران خان کی خوشنودی خاطر کو فوقیت دی ہے۔ اس طرح جناب عمران خان نے اپنے آئندہ کے احتجاجی مارچ یا اسلام آباد پر دھاوا بولنے کے پروگرام کے بارے میں ابھی سے سپریم کورٹ سے بہت ساری اُمیدیں باندھ لی ہیں۔ 
اس طویل داستان کو یہاں ختم کرتے ہیں ۔ جناب عمران خان کے انداز فکر و عمل اور ان کے طریقہ سیاست کے جو منفی اثرات ہماری قومی زندگی پر مرتب ہوئے ہیں ان کے بارے میں مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے ہمارا پورا قومی کلچر تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ الزام تراشی ، گالم گلوچ ، ضد ، ہٹ دھرمی ، میں نہ مانوں اور انتقامی انداز فکر و نظر ہمارے سیاسی اور معاشرتی کلچر کا حصہ بن چکے ہیں۔ اخلاقی قدروں اور روایات کی پاسداری ، ادب و احترام ، چھوٹے بڑے کی تمیز، معقول بات سننااوردلیل سے جواب دینا جیسے خصائص عنقا ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ جھوٹا پروپیگنڈہ ، فیک نیوز ، جعلی سوشل میڈیا اکائونٹ اور فسطائی ہتھکنڈے وغیرہ ایسے پہلو ہیں جنہیں جناب عمران خان کے انداز سیاست کا ثمر کہا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ نئی نسل اور نوجوان پود کو اس راہ پر لگا دیا گیاہے۔

مصنف کے بارے میں