عطاء الرحمن… رحمان کی عطا تھے !!

عطاء الرحمن… رحمان کی عطا تھے !!

عطاء الرحمن واقعی رحمان کی عطا تھے!
صحافت کی حُرمت، لفظ کی عصمت، نظریے کی استقامت، قلم کی آبرو، آئین کی سربلندی، جمہوریت کی کارفرمائی، قانون کی پاسداری، فکر کی استواری، موقف کی پائیداری، استغنا شعار طرحداری، مشرقیت میں گندھی وضعداری، حد کمال کو چھوتی سادہ شعاری اور ہرموسم میں راستی کے راستے پر چلنے کی پختہ کاری کا نام عطاء الرحمن تھا۔ میں اس مردِ درویش سے اپنے تعلق کو کوئی نام نہیں دے پا رہا۔ بے شک بعض تعلق، رشتہ وپیوند کے رسمی سابقوں اور لاحقوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اُن سے ملاقات نہال کردیتی تھی۔ جب بھی ملا، دل میں ایک چمنستان سا کھِل گیا۔ پاکستان کی تخلیق اور ان کا جنم، تقریباً ساتھ ساتھ ہوئے۔ عہدِ غلامی انہوں نے شعور کی آنکھ سے دیکھا نہ جھیلا۔ پاکستان کے پہلو بہ پہلو آنکھ کھولنے والے عطاء الرحمن کے لئے پاکستان ہی سب کچھ تھا۔ اُن کی حیثیت ہر آن پاکستان کے مدار میں گردش کرنے والے سیارے کی سی تھی۔ پاکستانیت ان کی رگوں میں جوئے خوں کی طرح رواں تھی۔ وہ ایمان کی حدوں کو چھوتے یقین محکم کے ساتھ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی سلامتی، بقا اور ترقی کا انحصار آئین وقانون، جمہوریت اور آزادیِ اظہار رائے میں ہے۔ جب پاکستان کی سرزمین میں پہلی بار مارشل لا کے شجرِ بے برگ وثمر نے سراٹھایا تو عطاء الرحمن کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ نوجوان جسم، نوجوان ذہن، نوجوان فکر اور نوجوان احساس نے آنے والے مزید گیارہ برس تک آئین شکنی، جمہوریت کُشی، شخصی آزادیوں کی تحقیر، وفاقی اکائیوں کی بے توقیری، شخصی آمریت کی فتنہ گری اور جمہوری اقدار کی پامالی کا عہد نامراد دیکھا۔ چوبیس برس کی بھری جوانی میں عطاء الرحمن نے اپنے پاکستان کو دولخت ہوتے دیکھا۔ وہ پاکستان جو اُس کا وطن نہیں، اس کا عشق، اس کا جنوں تھا۔ میراخیال ہے کہ یہ سانحہ عطاء الرحمن کے دل پر ایسا کاری زخم لگاگیا جو کبھی بھرنے میں نہ آیا۔ آیا بھی تو کسی تازہ دم آمر نے اُس پر مٹھی بھر نمک چھڑک دیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد لگ بھگ نصف صدی زندہ رہنے والے عطاء الرحمن نے مزید بیس برس آئین کوبازیچہ اطفال بنتے اور عدلیہ کو ہرایسی غارتگری کو خلعتِ جواز پہناتے دیکھا۔ اُس نے جمہوریت کو اونچی بارگاہوں میں پوچالگاتی اور برتن مانجھتی کنیز بنتے دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کیوں کر وزرائے اعظم، کھانے میں نمک زیادہ ڈال دینے والے باورچی کی طرح کھڑے کھڑے نکال دئیے جاتے ہیں۔ اُس نے دیکھا کہ کس طرح ’’مثبت‘‘ اور ’’مطلوب‘‘ نتائج کے لئے انتخابی نتائج کو کمہار کے چاک کی مٹی بناکر مرضی کی کوزہ گری کرلی جاتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ بظاہر جمہوریت کے خیمئہِ خوش رنگ میں، آراستہ پیراستہ مسند پر بیٹھی ’’سلطانیِ جمہور‘‘ دراصل کتنی لاچار، مجبور اور مقہور ہے۔ اُس نے برس ہا برس ’’ تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘‘ (میں نے تراشا، میں نے پوجا اور میں نے توڑدیا) کا بے آب ورنگ سرکس دیکھا۔ 
 اور بھی بہت سوں نے یہ سب کچھ دیکھا مگر آنکھیں دوسری طرف پھیرلیں۔ گریز ومصلحت کی بُکّل مار کر بیٹھ گئے۔ کچھ نے اس تماشے کو معمولاتِ حیات میں سے جانا اور اطمینان کی چادر تان لی۔ کچھ نے سورج مکھی کے پھول کی طرح اپنا چہرہ، ابھرتے آفتاب کی طرف موڑ لیا اور اس کی بلائیں لینے لگے۔ کچھ نے جمہوریت، سیاست اور سیاستدانوں کو بے نقط سنا کر آمریت کی بارگاہ میں جھومر ڈالنے کو طرہِ امتیاز جانا۔ کچھ نے آمرِ وقت کے دربار میں ایسے ایسے قصیدے پڑھے کہ انشاء اللہ خان انشاء کی روح بھی کسمسانے لگی۔ 
عطاء الرحمن ہمیشہ اس قبیلے سے بہت دور کھڑے نظر آئے۔ ان کے لئے یہ سب کچھ ناگواری کی حد تک ناقابلِ قبول تھا۔ بلکہ وہ تو اسے حلال وحرام کے ترازو میں تولتے تھے۔ پاکستان کے حوالے سے ان کا اضطراب ان کے زخم ِدل کو گہرا کرتا چلاگیا۔ ان کی ذیابیطس کی دھار تیز ہوتی اور مہلک اثرات مرتب کرتی چلی گئی۔ بظاہر ذیابیطس ہی نے ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے لئے ان کی دل سوزی ودردمندی، حالات حاضرہ کی بے چہرگی کا احساس اور پاکستان کے مستقبل کی بے یقینی کا کرب اُن کے زخمی دل میں نت نئے چرکے لگاتا رہا اور بالآخر انہیں کھاگیا۔ 
عطاء الرحمن صاحب ہمہ صفت شخصیت کے مالک تھے۔ تعلیم وتدریس میں گئے تو اپنا سکہ جمایا۔ ایک نئی جامعہ میں ابلاغیات کے شعبے کی داغ بیل ڈالی اور اُسے پھلتا پھولتا دیکھا۔ مختلف جامعات میں لیکچر دیتے رہے۔ اُن کے شاگرد اُن کی معلّمانہ صلاحیتوں کو یاد کرتے ہیں۔ صحافت کے مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوایا۔ ایک مبصّر کی حیثیت سے نمایاں رہے۔ سیاسی تجزیہ کاری اُن کا شعبہ خاص تھا۔ روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کی بنیاد ڈالی اور اُسے ایک سنجیدہ، پروقار اور معتبر اخبار بنادیا۔ کالم نگار کے طور پر اُن کا تجزیاتی انداز واسلوب منفرد تھا۔ ہفت روزہ ’تکبیر‘ کے مدیر، صلاح الدین شہید کے بعد، تاریخی آگہی، نظریاتی پختگی، زور استدلال اور دلپذیر انشاء کے حوالے سے عطاء الرحمن کا کوئی ثانی نہیں۔ جو بھی لکھا، تپاکِ جاں سے لکھا، ہر لفظ میں اپنا دل سمودیا۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہوکر لکھا۔ زور ورآمروں اور تھُڑ دلے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے خوف سے آزاد ہوکے لکھا۔ اُن کے منحنی سے جسم میں نہ جانے توانائی کی کیسی کیسی ’’برق گاہیں‘‘ ہرآن چلتی رہتی تھیں کہ تھکنا، ہارنا اور گریز ومصلحت کی عافیت گاہوں کا رُخ کرنا، اُن کے نصابِ حیات سے خارج تھا۔ 
وہ حقیقی معنوں میں درویش منش انسان تھے۔ کھرے سونے جیسا کردار رکھنے والے عطاء الرحمن بوجوہ نوازشریف کے دلدادہ تھے۔ یہ محض رسمی بات نہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں دل دے بیٹھے تھے۔ دلوں کے لین دین کا معاملہ ’عاشق و معشوق‘ کے درمیان ہوتا ہے اور اس کی کرید لاحاصل ہے۔ میں نے انہیں درجنوں بار وزیراعظم نوازشریف سے ملتے دیکھا۔ انہوں نے کبھی بھول کر بھی اپنے کسی ذاتی مسئلے کا ذکر نہ کیا۔ کبھی کوئی خواہش ان کے لبوں پر نہ آئی۔ کبھی دست سوال دراز نہ کیا۔ ہمیشہ پاکستان کی بات کی اور دبنگ لہجے میں کی۔ توصیف کم کم اور تنقید دھڑلے سے کی۔ میاں صاحب کبھی کبیدہ خاطر نہ ہوئے۔ عطاء الرحمن صاحب کا بے انتہا احترام کرتے۔ اُن کے انتقال کی خبر پر میاں صاحب نے وائس میسج بھیجا تو اُن کی آواز بھّرائی ہوئی تھی۔۔ ’’میں اپنے بہت ہی اچھے اور مخلص دوست سے محروم ہوگیا ہوں۔ بہت کھرے، سچے اور عظیم انسان تھے۔‘‘
اہل قلم، دوسروں کی تعریف میں خاصے بخیل ہوتے ہیں۔ عطاء الرحمن صاحب کو میں نے اس معاملے میں بہت ہی کشادہ ظرف پایا۔ کالم نگاری کے دنوں کی بات ہے۔ جب بھی ملتے یا فون پر بات ہوتی تو اکثر کہتے ’’آپ نے تو میرے گھر میں لڑائی ڈال رکھی ہے۔ میری بیوی سب سے پہلے آپ کا کالم پڑھتی ہے۔ اس کے بعد میرا ، اور پھر کہتی ہے کہ ’’لکھ سکتے ہو تو عرفان صدیقی کی طرح لکھا کرو ورنہ چھوڑ دو یہ کالم والم۔‘‘ مجھے معلوم ہے کہ عطاء الرحمن کے تجزیاتی کالم، میرے روا روی کے کالموں سے بدرجہا بہتر، موثر اور خوبصورت ہوتے تھے لیکن یہ محض اُن کی وسیع الظرفی، دوست نوازی اور پچھلی صف کے ایک رفیق کار کی دلداری تھی۔ 
 کچھ دنوں سے موت بڑی تیزی پا ہوگئی ہے۔ ہر روز کسی ہمدم دیرینہ کے رخصت ہوجانے کی خبر ملتی ہے۔ دل زخم زخم ہوجاتا ہے۔ جہد مسلسل سے اپنے اپنے شعبے میں نام اور مقام بننے والے قطار باندھے سرحد کے اس پار جارہے ہیں۔ اُن کے بچھڑ جانے کا دُکھ اپنی جگہ، پیدا ہونے والے خلا کے پُر نہ ہونے کا کرب کہیں زیادہ ہے۔ ’’نئی بات‘‘ کو ایک ایڈیٹر مل جائے گا۔ ادارتی صفحے پر کسی اور کا کالم چھپنے لگے گا۔ عطاء الرحمن کی سنجیدہ گفتاری اور شگفتہ گوئی سے سجی محفلیں آباد رہیں گی۔ لیکن صحافت کو کب کوئی دوسرا عطاء الرحمن ملے گا؟ شاید برس ہا برس لگ جائیں۔ 
مجھے ہتھکڑی لگے ہاتھ دیکھنے، جیل میں کسی قیدی سے ملنے اور کفن پوش میّت کا چہرہ دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ لیکن میں دھکم پیل کے باوجود تابوت کے قریب گیا۔ عطاء الرحمن صاحب کا چہرہ شانت، مطمئن اور آسودہ تھا۔ بہت ہی خفیف سی مسکراہٹ۔ جیسے کہہ رہے ہوں 
شادم از زندگی، خویش کہ کارِ کردم 
(میں اپنی زندگی سے خوش ہوں کہ کوئی کام کرکے جا رہا ہوں) 
 چند دن پہلے فون پر اُن کا حال پوچھا۔ اُن کی آواز کی لو بجھتی ہوئی محسوس کی۔ میں نے کہاکہ … ’’اگلے ہفتے آپ سے ملنے آئوں گا‘‘۔ بولے ’’ضرور آئیں۔ مگر آپ وعدہ کردیتے ہیں، آتے نہیں۔‘‘ اب کے میں وعدے کی تکمیل کا پختہ ارادہ اور سامان کر کے اسلام آباد سے نکلا تھا۔ لیکن بھیرہ کے قریب یہ خبر دل میں تیرِنیم کش کی طرح ترازو ہو گئی کہ عطاء الرحمن صاحب تو رُخصت ہو گئے …
اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ جیتے جی کسی کے لئے ایک حرفِ ستائش بھی نوک زباں پہ آتا ہے نہ نوکِ قلم پر۔ پلٹ کر بھی نہیں پوچھتے کہ کوئی کس حال میں ہے، اُس کے شب و روز کا عالم کیا ہے۔ جیتے جی کسی کو خراج پیش کرنے ، کوئی بزمِ سپاس نہیں سجاتے، چلا جائے تو ریفرنسز کی برکھا تھمنے میں نہیں آتی۔ زندگی بھر کسی کی قدرافزائی کے لئے اُس کے گلے میں کاغذی پھولوں کا ہار بھی نہیں ڈالتے، مر جائے تو اُس کی لحد پر تازہ سرخ گلابوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ زندہ ہو تو کبھی کسی کے دروازے پر دستک دے کر نہیں پوچھتے کہ کیسی گزر رہی ہے، رخصت ہوجائے تو اس کے عزیزوں کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔ دوستوں کی نم ناک آنکھوں، احباب کی تحسین وآفرین، تازہ سرخ گلابوں کے ہاروں اور رفقائے کار کی طرف سے اعتراف عظمت کے خطبات کے لئے مرنا اور منوں مٹی تلے دفن ہونا ضروری ہے۔ دنیا اسی کا نام ہے۔ جیتے جی سنگ باری ، مر جانے پر اشک باری 
اللہ اُس مردِ جلیل وجمیل کو اپنے مقربّین کے گوشہِ خاص میں جگہ عطا فرمائے۔

مصنف کے بارے میں