عدالت میمو گیٹ کے معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی:سپریم کورٹ

عدالت میمو گیٹ کے معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی:سپریم کورٹ
کیپشن: iamge by facebook

اسلام آباد :پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کے سربراہ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ امریکی حکام بظاہر پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی حوالگی سے متعلق پاکستانی حکام سے تعاون نہیں کر رہے اور انھوں نے اس معاملے میں پاکستان سے مزید دستاویزی ثبوت مانگے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں میمو گیٹ کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کو بتایا کہ ملزم کی حوالگی کے بارے میں پاکستانی حکام نے امریکی حکام سے بات چیت کی تھی تاہم اُنھوں نے اس بارے میں کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ حسین حقانی کی حوالگی کے بارے میں پاکستان کو عالمی سطح پر بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ انٹرپول نے بھی اس بارے میں کوئی تعاون نہیں کیا اور اُنھوں نے حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے امریکی حکام سے حسین حقانی کی حوالگی کے بارے میں بات کی تو امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اُن کا بندہ بھی پاکستانی حکام کے پاس ہےلیکن ڈی جی ایف آئی اے نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جس کا ذکر امریکی حکام نے کیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص امریکی سپریم کورٹ کو پیش ہونے سے متعلق بیان حلفی دے کر عدالت میں پیش نہ ہو اور وہ شخص پاکستان واپس آجائے تو کیا پاکستان اس کی حوالگی کے بارے میں انکار کر سکتا ہے۔

ایف آئی اے کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے امریکی حکام کو حسین حقانی کی امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر تعیناتی کے دوران ’چار ارب روپے سے زیادہ کی بدعنوانی‘ میں ملوث ہونے کے بارے میں بھی بتایا لیکن ان کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی حوالگی کے بارے میں بھی انھیں مسائل کا سامنا تھا ، ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ انٹرپول میں اعلیٰ عہدوں پر پانچ بھارتی باشندے تعینات ہیں جبکہ اس میں پاکستان کا ایک بھی نمائندہ موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میمو گیٹ کے معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔