سید علی گیلانی ؒ کا آزادی کشمیر کیلئے شاندار کردار

سید علی گیلانی ؒ کا آزادی کشمیر کیلئے شاندار کردار

گزشتہ برس یکم ستمبر کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سیدعلی گیلانیؒؒ اپنی نظر بندی کے دوران ہی کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش اپنے دل میں لئے انتقال فرما گئے۔  اناللہ واناالیہ راجعون۔ علی گیلانیؒ کو ان کے گھر پر ہی بھارتی فوج نے نظر بند کر رکھا تھا اور یہ سلسلہ گزشتہ 12 سال سے چل رہا تھا۔ سید علی گیلانیؒؒ اور ان کے اہل خانہ چاہتے تھے کہ ان کی تدفین سرینگر کے مزار شہدا میں کی جائے۔تاہم بھارتی قابض انتظامیہ نے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کے خوف سے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔ انہیں حیدر پورہ میں اپنے گھر سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر دفن کیا گیا۔ بہت کم تعداد میں لوگوں جن میں بیشتر اہلخانہ، قریبی رشتہ دار اور ہمسائے شامل تھے کو ان کی نماز جنازہ میں شرکت اور ان کی آخری جھلک دیکھنے کی اجازت دی گئی۔
قلم کاروان،اسلام آبادکی ادبی نشست منعقدہ30اگست 2022ء میں کشمیری مجاہدآزادی سیدعلی گیلانیؒؒ کی پہلی برسی کے حوالے سے ”سیدعلی گیلانیؒ:اب ہم میں نہیں رہے“کے عنوان پربزرگ کالم نویس جناب میرافسرامان نے اپنے مقالے میں سید علی گیلانیؒ کے حالات زندگی کامختصر جائزہ پیش کیا۔جس میں ان کے خاندانی حالات، بچپن، لڑکپن، تعلیم اور عملی زندگی تک کے تمام حالات کا  احاطہ کیاتھا۔خاص طورپر سیاسی زندگی میں جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی وابستگی اورپھر تحریک حریت کشمیرکی قیادت اوراس دوران دارورسن،قیدوبند اور آزمائش و ابتلاکی جملہ نہایت جامعیت کے ساتھ بیان کی گئی تھیں۔
سید علی گیلانیؒ کی آزادی کشمیر کیلئے جدوجہد کے پیش نظر یہ کہنا کہ وہ ہم میں نہیں رہے، غلط ہے، بلکہ وہ ہم میں موجودہیں اورجب کبھی کشمیرکاپاکستان کے ساتھ الحاق ہوگاتو اس کاسہراسیدعلی گیلانیؒ اور شہدائے آزادی کشمیرکے سر ہوگا۔ قدرت نے مسئلہ کشمیرحل کرنے کے متعددمواقع فراہم کیے لیکن پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے فائدہ نہ اٹھایا۔  گزشتہ تین کشمیری نسلیں اس آگ کاایندھن ہیں آخریہ مسئلہ کب حل ہوگا۔تقسیم ہندکے وقت قائداعظم ؒنے سکھوں اورکشمیریوں سے کہاتھاکہ ہندوستان کے ساتھ الحاق پر انہیں بالآخر ندامت ہوگی اوروہی ہوا۔ دونوں قومیں آج برہمن کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔1964میں شیخ عبداللہ پاکستان آئے تھے لیکن اس وقت تک پانی سرسے بہت اونچا ہوچکا تھا۔
کسی بھی مجاہد آزادی خصوصاً آزادی کشمیر کی تحریک سے متعلق شخص کے لیے علامہ اقبالؒ کے ساتھ وابستگی نہ صرف ایک فطری امر بلکہ ناگزیر ہے۔ اقبالؒ سے سید علی گیلانیؒ کا اوّلین تعلق ہائی سکول سوپور میں تعلیم کے دوران پرندے کی فریاد پڑھ کر قائم ہوا تھا۔ یہ نظم انھیں ازبر ہوگئی۔ وہ اسے بچپن میں بھی پڑھتے اور آنسو بہاتے تھے۔ پھر جب انھیں اپنے لڑکپن میں ایک مختصر عرصے کے لیے علامہ اقبالؒ کے ایک قریبی دوست محمد دین فوق کے ایما پر لاہور میں قیام کرنا پڑا تو وقتاً وقتاً بادشاہی مسجد جاکر اقبالؒ کی قبر کی قربت سے ایک قلبی سکون اور طمانیت حاصل کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت اقبالؒ کے کلام اور ان کے مرتبے اور مقام سے بے خبر تھا‘ لیکن شاید یہ ایک روحانی تعلق تھا جو انھیں کشاں کشاں اقبالؒ کی تربت کی طرف لے جاتا۔ آگے چل کر اقبالؒ سے ان کا یہ تعلق اتنا پختہ اور استوار ہوگیا کہ آزادی کشمیر کی تحریک میں علی گیلانیؒ کے لیے کلام اقبالؒ ایک بڑا سرچشمہ تحریک ثابت ہوا۔ ان کی زیرنظر کتاب ”اقبالؒ روح دین کا شناسا“ اسی تعلق کی داستان اور شہادت پیش کرتی ہے۔
سیدعلی گیلانیؒ نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں عمر بھر کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی وکالت کی۔ انہوں نے بھارتی ظلم و جبر کے کسی ہتھکنڈے کے آگے سرِتسلیم خم کیا نہ اپنے اصولی موقف میں کبھی کوئی ہلکی سی بھی لچک پیدا ہونے دی۔ بھارت کی ہر حکومت نے انہیں تحریص و تخویف کے مختلف ہتھکنڈوں کے تحت دبانے اور لالچ میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر انکے پائے استقلال میں کبھی لغزش پیدا نہ ہوئی۔ وہ آزادی کی بے پایاں تحریک کا استعارہ اور کشمیریوں کے اتحاد کی علامت تھے جن سے بھارتی حکمران اور انکے کٹھ پتلی کشمیری لیڈران اتنے خوفزدہ تھے کہ انہیں قیدوبند میں رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے چنانچہ سیدعلی گیلانیؒ کی زندگی کے 20 سے زیادہ سال بھارتی قیدوبند کی صعوبتوں میں گزرے مگر قیدوبند کے دوران بھی وہ دنیا بھر میں موجود کشمیری عوام کو کشمیر کی آزادی اور اسکے پاکستان کے ساتھ الحاق کی جدوجہد کیلئے متحرک رکھتے جن کی ایک کال پر پوری مقبوضہ وادی میں پلک جھپکتے مکمل شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال ہو جاتی اور کشمیری نوجوان اپنی سرزمین کی آزادی کی خاطر قربانیوں کے جذبے سے معمور ہو کر اور سروں پر کفن باندھ کر ظالم بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہو جاتے۔ 
 سید علی گیلانیؒ کا مشہور زمانہ نعرہ ”ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے“  اب عام کشمیریوں کی آواز بن گیا۔ سید علی گیلانیؒ کی رحلت سے مقبوضہ کشمیر میں ”تحریک آزادی“ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ ان کی وفات کے بعدمقبوضہ وادی میں کئی جگہ مشتعل نوجوان گھروں سے نکلے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ سید علی گیلانیؒ کی وفات کے بعد مقبوضہ وادی کا ایک ایک نوجوان سید علی گیلانی بن گیا ہے۔ حیدر پورہ قبرستان میں انکی تدفین کے وقت بھی کشمیری حریت رہنما کے نعرے ”ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے“ کی گونج سنائی دی۔
پاکستان اور کشمیر سے ان کی بے مثال وابستگی اور محبت پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی یاد قابض بھارتی فوج کے ناجائز قبضے کے خلاف اہل کشمیر کے جذبے اور تحریک کو آگے بڑھاتی رہے گی۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے قانونی حق کے حصول تک کشمیریوں کی ہرممکن مدد کرتا رہے گا۔

مصنف کے بارے میں