بجلی اور پیٹرول کے جھٹکے

بجلی اور پیٹرول کے جھٹکے

حکومت نے چند دن پہلے 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھائی اور اس کے کچھ دن بعد ہی بے بس محکوم و مجبور عوام پر ساڑھے سات روپے فی یونٹ مزید بڑھا کر مہنگائی کا ایک پورا ایٹم بم گرا دیا لیکن اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یکم اگست کو جاتے جاتے پیٹرول کی قیمت 19روپے پچاس پیسے اور ڈیزل کو انیس روپے نوے پیسے بڑھا کر سفید پوش طبقہ کا جینا محال کر دیا ہے۔اتنی سائنس توسبھی کے علم میں ہے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ کون سی حکمت عملی ہے کہ اگر یکم اگست کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اگر نہ بڑھائی جاتیں تو کون سی قیامت آ جانا تھی لیکن گذشتہ دو مرتبہ قیمتیں اتنی کم نہیں ہوئیں کہ جتنی بڑھا دی گئی ہیں اور وہ بھی بلا جواز کہ عالمی مارکیٹ میں تو کوئی نرخ نہیں بڑھے اور رہی ڈالر کی بات تو اگر آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ڈالر آنے کے باوجود بھی ڈالر کی قیمتیں کم نہیں ہو سکیں تو اس میں عوام کا تو کوئی قصور نہیں بلکہ سیدھی سیدھی حکومت کی نا اہلی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد یہ بیان محترم وزیر خزانہ نے ہی دیا تھا کہ ڈالر کا ریٹ دو سو تک آ جائے گا اور گیارہ روپے کم ہوا بھی تھا لیکن شومئی قسمت کہ اب پھر انٹر بنک میں ڈالر 286کا ہو چکا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں حکومت جب بھی اضافہ کرتی ہے تو ایک انتہائی احمقانہ سا بیان کہ جو جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے وہ ضرور دیتی ہے کہ اس سے غریب آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ حکومت غریب آدمی کس کو سمجھتی ہے اس کے لئے وہ سو سے دو یونٹ تک کو معیار بنا کر کہتی ہے کہ یہ غریب آدمی ہے اور 45 فیصد افراد کی تعداد دو سو یونٹ تک استعمال کرتی ہے اور یہ موجودہ حکومت کی بات نہیں بلکہ ہر حکومت یہی کہتی ہے لیکن جو لوگ یہ بات کرتے ہیں انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ سو دو سو یونٹ اس وقت کی بات ہے کہ جب آج سے چالیس پچاس پہلے اکثر لوگوں کے گھروں میں ایک دو بجلی کے بلب ہوتے تھے سب چھت پر یا صحن میں سوتے تھے اور دن میں گھر کا اکلوتا پنکھا چلتا تھا لیکن اب وہ دور خواب ہوئے اب تو شہروں میں ہی نہیں بلکہ گاؤں دیہاتوں میں بھی چھت اور صحن میں سونے کا رواج ختم ہو چکا ہے تو کون سے سو دو سو یونٹ اب تو ایئرکنڈیشن نہ سہی لیکن پنکھے فریج اور دیگر برقی آلات کے ساتھ گرمیوں میں تین سو یونٹ سے کم بل ہوتا ہی نہیں اور اس پر بجلی والوں کی مزید بدمعاشی کہ میٹر ریڈنگ دو چار دن بعد کریں گے تاکہ یونٹ بڑھنے کے بعد سلیب زیادہ والا لگے۔
عقل کے اندھے میں بھی اتنی عقل تو ضرور ہوتی ہے کہ آمدن بڑھانی ہو تو عوام کا بے شک جینا دوبھر ہو جائے لیکن آپ بڑی آسانی کے ساتھ چند کام کر سکتے ہیں ایک پیٹرول کی قیمت بڑھا دیں دوسرا بجلی کی قیمت بڑھا دیں اور تیسرا گیس کی قیمت میں من مانا اضافہ کر دیں اس کے علاوہ چوتھا ایک ذریعہ بھی ہے کہ کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس بڑھا دو لیکن اس میں تاجر برادری جب منظم ہو کر دھمکاتی ہے تو پھر حکومت کو سب کچھ واپس کرنا پڑتا ہے لہٰذا عوام ہی ایک ایسی لاچار مخلوق ہے کہ اس کے اوپر جتنا بوجھ ڈالنا ہو حکومت ڈال دیتی ہے لیکن یقین جانے کہ اب حالات بڑے خطرناک ہوتے جا رہے ہیں اور ہمیں تو خوف محسوس ہوتا ہے کہ جس دن عوام سڑکوں پر نکل آئے اور وہ بھی بغیر کسی قیادت کے تو اس دن کیا ہو گا ایک اور کام کہ گھر کے برتن بیچنا ہیں کہ جس کی نوبت اب آ چکی ہے اور گروی اور آؤٹ سورس کے نام پر یہ کام بھی شروع ہو چکا ہے اور جب گھر کی چیزیں بیچنے کی نوبت آ جائے تو سمجھ آ جانی چاہیے کہ ہمیں لالی پاپ دیے جا رہے ہیں اور حقیقت میں ہم معاشی طور پر کس جگہ کھڑے ہیں۔ معاشی بہتری کے لئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ہم نے وہی نہیں کی یعنی کسی موثر معاشی پالیسی کا اجرا اور کاروبار دوست ماحول کا قیام۔ جس طرح ہم جتنی چاہے یونیورسٹیز بنا لیں لیکن جب تک سائنس دوست ماحول کے بجائے ڈی این اے سے لے کر آنکھیں عطیہ کرنے تک ہر بات حرام رہے گی اس وقت تک ہمارے ملک میں ان تعلیمی اداروں سے کبھی کوئی سائنس دان بن کر نہیں نکل سکتے۔ اسی طرح اول تو ہماری کوئی معاشی پالیسی اب تک ہے ہی نہیں لیکن اگر بن بھی جائے تو کاروبار دوست ماحول کی عدم موجودگی میں نہ تو کوئی معاشی پالیسی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے اور نہ ہی معیشت ترقی کر سکے گی ہم کوئی ہوا میں بات نہیں کر رہے ہمارا کاروباری برادری سے بڑا قریبی تعلق ہے اور ہم جانتے ہیں کہ بہت سی مصنوعات صرف اس وجہ سے پاکستان میں نہیں بن سکتی کیونکہ ان کی پیداواری لاگت دیگر ممالک سے زیادہ ہے اور اس کے باوجود بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہنرمند، مزدور اور ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہیں دیگر ممالک سے کافی کم ہیں لیکن بجلی کے نرخ اور ٹیکسز کی زیادتی لاگت میں اضافہ کر دیتی ہے لہٰذا اگر ہم نے اپنی معیشت کو بہتر کرنا ہے تو اس کے لئے قرضوں پر انحصار کم نہیں بلکہ ختم کرنا پڑے گا اور مزید ستم یہ کہ تحریک انصاف کے دور سے ایک اور برائی کا شکار ہو چکے ہیں کہ قرضہ ملنے کے بعد قرضہ دینے والے کو جھک کر سلام بھی کرتے ہیں اور عوام کے سامنے اس قرض کو ایک بڑی خوش خبری کے طور پر پیش بھی کرتے ہیں
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اور پھر جب قرض مل جاتا ہے تو اسے ایک لعنت بھی قرار دیتے ہیں تو یہ رویے اور یہ معیار ہمیں بدلنا ہوں گے اس کے بغیر معیشت میں بہتری ممکن نہیں ہو گی اور جب تک معیشت بہتر نہیں ہو گی اس وقت تک کسی صورت مہنگائی کم نہیں ہو گی۔