سال ِنو کا تحفہ ،منی بجٹ

سال ِنو کا تحفہ ،منی بجٹ

وطنِ عزیز میں سالِ نو کا آغاز منی بجٹ کی آ مد سے ہوا۔ ہما رے وزیرِ خزا نہ کا فرما نا تھا کہ اس بجٹ سے غریب آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا کیونکہ جن اشیا پر ٹیکس لگایا گیا ہے وہ غریب لوگ استعمال نہیں کرتے، مگر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی زد میں آنے والی اشیا کی فہرست دیکھ کر وزیرخزانہ کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ کم از کم 144اشیا اس منی بجٹ کی زد میں آئیں گی جن پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کرکے 360 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے چند درآمدی اشیا ایسی ہوں جو عام آدمی کے استعمال کی نہیں، مگر اس فہرست میں سیکڑوں اشیا ایسی ہیں جو ہر آدمی کی روز مرہ کی ضررورت ہیں۔ حکومت نے ادویات کے خام مال، بیکری میں بننے والی روٹی، مٹھائی، بچوں کی دودھ کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا، دہی، پنیر، مکھن، کریم، مرغبانی کی صنعت کی پیشتر اشیا اور مرغبانی کی صنعت کی پیشتر اشیا اور مرغیوں کی خوراک، سورج مکھی اور کینولا کے ہائبرڈ بیجوں، ڈیری فارمنگ اور گرین ہائوس فارمنگ پر یکساں 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس تجویز کیا ہے۔ جس کے لاگو ہونے سے خوراک اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اگر کوئی اس حقیقت کو نہیں مانتا تو وہ ہمارے وزیر خزانہ ہیں جو 360 ارب روپے کے مزید ٹیکس عائد کرنے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیںگے کہ ان ٹیکسوں کا اثر ان پر نہیں پڑے گا۔زیا دہ بڑی مثال پیش کر نے کی ضرورت نہیں۔ صرف پٹرول کو دیکھ لیجئے جس کی قیمت میں ساڑھے چا ر روپے کا اضا فہ ہو ا۔ کہنے کو کہہ سکتے ہیں کہ اس کی قیمت کے بڑھنے کا تعلق منی بجٹ سے نہیں۔ مگر کیا یہ کبھی ہو سکتا ہے کہ جب ملک میں اشیا ئے ضروریہ کی قیمتوں میں اضا فہ ہو رہا ہو اور پٹرول کی قیمت اپنی جگہ کھڑی رہ جائے؟ اور پٹرول کاتعلق اب امیر اور غر یب سے برابر کا ہے اور پھرصرف خوراک کے شعبے تک یہ اثرات محدود نہیں۔ ٹیلی فون اور ضرورت کی دیگر بہت سی اشیا جن پر سیلز ٹیکس بڑھایا گیا ہے، مہنگی ہوجائیں گی۔ ایک ایسا ملک جسے صنعت و پیداوار بڑھانے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور درآمدات کا بوجھ کچھ کم ہو، اس نے موبائل فون بنانے والے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر بھی 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگادیا ہے۔ زراعت، جسے ہم ملکی معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ مانتے ہیں، کو جدید بنانے کے لیے مشینری کی درآمد میں سہولیات دینے کی ضرورت ہے تاکہ نئے رجحانات متعارف ہوں، پیداوار میں اضافہ اور وسائل کا بہتر استعمال یعنی بنایا جاسکے۔ مگر آئی ایم ایف کا ٹارگٹ پورا کرنے کی دھن میں حکومت نے اس صنعت کو بھی نہیں چھوڑا اور سپرنکلرز، ڈرِپ ایری گیشن اور سپرے پمپس سمیت کئی طرح کی مشینریوں پر جنرل سیلز ٹیکس لاگو کردیا ہے۔ایک ایسا ملک جو پانی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، جہاں پانی کے باکفایت استعمال کا رجحان پیدا کرنے کے لے کام کرنا بہترین قومی مفادات میں ہے، وہاں ان اشیا تک رسائی کے لیے حکومت کو اصولی طور پر سہولیات کا اعلان کرنا چاہیے مگر ہماری حکومت چند ارب روپے کے ٹیکس کی خاطر فارمنگ کے جدید وسائل پر بھاری ٹیکس عائد کرکے ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور استعمال کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی مرتکب ہورہی ہے۔ اسی طرح پولٹری کی صنعت ہے جس کی متعدد آئٹمز پر یکساں 17 فیصد جی ایس ٹی سے گوشت اور انڈوں کے نرخوں میں اضافہ ہوگا۔ مگر وزیر خزانہ سمجھتے ہیں کہ اس سے غریب آدمی کی معاشی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اب حکومت اس سے زیادہ کیا کرسکتی تھی کہ ماچس کی ڈبیا اور آئیوڈین ملے نمک پر بھی 17 فیصد ٹیکس لگادیا ہے۔ یہ سبھی اشیا، تیل پر لیوی کی مدد میں ماہانہ چار روپے اضافے کے علاوہ ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرنے میں کوئی دیر نہیں کی۔یہاں یہ یا کرا نا ضرو ری ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم نے اقتدار میں آ نے سے پہلے فرما یا تھا کہ وہ آ ئی ایم ایف کے پا س جانے کی نسبت خو دکشی کو تر جیح دیں گے۔اس قدر کھلا تضاد اور با تیں ریا ستِ مد ینہ کی؟کیا یہی تعلیم ہے جو ہم اپنی آ نے والی نسلوں کو دینا چا ہتے ہیں؟گو ہما رے اس سے پہلے کے حا کم بھی آئی ایم ایف کے پا س جا تے رہے ہیں، لیکن پلیٹ میں رکھ کر اپنا سب کچھ آئی ایم ایف کو پیش صر ف اسی حکو مت نے کیا ہے۔ بہر حا ل اب با رہ جنوری سے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس شیڈول ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس سے پہلے یہ نئے ٹیکس لگانے کا کام مکمل کرلیا جائے تاکہ آئی ایم ایف کے ریویو میں کامیابی مل سکے جس سے ایک ارب ڈالر کے قرض کی راہ ہموار ہوگی۔ ماضی قریب میں ہمارے سرکاری ماہرین معیشت بڑی شدومد سے یہ دلیل دیتے تھے کہ آئی ایم ایف کے قرض کے ساتھ معیشت کا تشخص بہتر ہوگا جس سے مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین میں آسانی رہے گی۔ مگر آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی منظوری ملنے کے قریب ایک ماہ بعد بھی ایسی کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ کہیں سے معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں، کوئی نئی سرمایہ کاری نظر نہیںآتی۔ حکومت زبانی جمع خرچ اور جھوٹی تسلیوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہی ہے اور لاغر معیشت پر محصولات کا بوجھ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ اس طرح پاکستان نے معاشی اعتبار سے دنیا کے اس حصے میں خود کو دوسروں سے نمایاں طور پر الگ کرلیا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں شرح سود سب سے زیادہ ہے، توانائی کے نرخ سب سے زیادہ ہیں اور جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکس سب سے زیادہ ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کے پاس ایسی کوئی کشش نہیں جو خطے کے دیگر ممالک کے بجائے سرمائے کو اپنی جانب کھینچ سکے۔ ہمارے ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں روزگار کے مواقع چاہئیں جبکہ روزگار سرمایہ کاری سے پیدا ہوتے ہیں لیکن اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ حکومت کی معاشی پالیسی اسی نکتے پر مرکوز ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے ملنے کے بعد دیگر قرض دہندگان عالمی اداروں سے قرض مل سکتے ہیں، لہٰذا جیسے بھی ہو آئی ایم ایف کو راضی کرو۔ حکومت کی اس پالیسی میں پاکستان کا غریب، درمیانی آمدنی والا، نوجوان، کارخانہ دار، دکاندار، محنت کش، تاجر کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ حکومت عام آدمی کے درد کو محسوس کیے بغیر ٹیکسوں کی شرح بڑھاتی اور مہنگائی میں اضافہ کیے چلی جارہی ہے، مگر غیرترقیاتی اخراجات کم کرکے بچت کی جانب کوئی توجہ نہیں۔

مصنف کے بارے میں