ذمہ دار کون ہے؟

ذمہ دار کون ہے؟

اگلے روز جناب سراج الحق کی تقریر کا ٹِکر چل رہا تھا کہ کاکڑ، نواز شریف، شہباز شریف، زرداری کوئی بھی حالات کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ لالہ سراج الحق انتہائی مہارت سے عمران احمد نیازی کا نام گول کر گئے، حالانکہ جانتے ہیں کہ
نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
نصف کو آپ پون صدی کر لیں
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
لالہ سراج الحق صاحب جن کو میں ذاتی طور پر ایک بہترین سیاستدان اور عوام دوست رہنما سمجھتا ہوں، بہتر ہوتا کہ میاں طفیل محمد مرحوم سابقہ امیر جماعت اسلامی کے سیاسی کردار، جنرل ضیا الحق، پرویز مشرف ادوار کو بھی مخاطب کر ہی لیتے تو سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ ذمہ دار کون ہے۔ ہو سکتا ہے سراج الحق صاحب نے نیازی صاحب کی پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد کرنا ہو جس کی پیش بندی کے طور پر حالات کی ذمہ داری میں ان کے ”سنہری اور ضرب المثل دور“ کا نام نہیں لیا۔ کیا لالہ سراج کو نہیں علم کہ ذمہ دار کون ہے؟ کبھی نواز شریف کی سہولت کاری اور کبھی عمران نیازی کی سہولت کاری حقیقی عوامی قوت کے خلاف کن جماعتوں، پریشر گروپوں اور ریاستی ستونوں سے ہوئی۔ اللہ کرے وطن عزیز میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا ارتقائی عمل جاری رہے جیسے تیسے بھی قومی قومی اعتماد کی فضا بحال ہو۔
نہ جانے کتنی بار ایک قصہ لکھ چکا۔ ”ایک ملک پر دوسرے ملک کے بادشاہ نے لشکر کشی کی، ابھی پہلا شہر ہی فتح کیا تھا، کوئی مزاحمت نہ ہوئی، مرد و زن قیدی بنا کر ایک بہت بڑے خیمہ میں اکٹھے کر دیے گئے۔ عورتوں کو حکم دیا کہ ڈانس کرو۔ ڈفلی بجی، ڈانس شروع ہو گیا۔ حکم ہوا، برہنہ ہو جاؤ لہٰذا برہنہ ڈانس شروع ہو گیا۔ پھر حکم ہوا کہ تمام عورتیں کپڑے پہن لیں، مرد و زن آزاد کر دیے گئے۔ اپنے لشکر سے بادشاہ نے کہا تم بھی آرام کرو یا فتح کا جشن مناؤ، صبح لشکر دوبارہ تیار ہوا۔ بادشاہ نے، جو سپہ سالار بھی تھا، اپنی فوج کو حکم دیا کہ تلواریں نیاموں میں رکھیں، زرہیں مت پہنیں، گھوڑوں پہ کاٹھیاں ڈالیں اور چلیں ملک فتح کرتے ہیں۔ ایک دستے کا سربراہ گویا ہوا، بادشاہ سلامت اس طرح تو ہم کسی جوابی حملے کے سامنے ٹھہر نہ پائیں گے؟ سپہ سالار بادشاہ نے جواب دیا، کل رات کسی ایک عورت یا کسی ایک مرد نے مزاحمت نہیں کی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے حاکموں نے اپنے عوام کو رعایا بنا کر اس ظالمانہ طریقے سے غلام بنا رکھا تھا کہ کسی نے مزاحمت ہی نہیں کی کیونکہ ان میں مزاحمت کا رواج ختم ہو کر رہ گیا“۔ ہمارے حکمران طبقوں، بیوروکریسی، جانبدار عدلیہ، خون چوسنے والے تاجروں، صنعتکاروں نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے عوام میں سوال کرنے کی جرأت اور جواز ہی ختم کر دیا۔ اس پر افسوس یہ ہے کہ ہمارے دانشور، قلم کار اور لکھاری بھی جانبدار ہو گیا۔ کچھ اس طرح کہ اپنی بولی لگوانے کے لیے ترس ہی نہیں پھڑک رہا ہے۔ اگر کسی کو غلط فہمی یا خوش فہمی ہو گئی ہو تو واپسی کی راہوں کا متلاشی ہے۔ حکمران جب حملہ آوروں جیسا سلوک کریں تو ذمہ داری کون لے گا؟ سب حملہ آور ہیں اور ہماری دیانت یہ ہے کہ ہم سوال بھی اپنی پسند کا جواب لینے کے لیے کرتے ہیں۔ سقراط نے کہا تھا ”سوال کو سمجھنا ہی آدھا جواب ہوا کرتا ہے“۔ رضا رومی کا اکثر پروگرام دیکھتا ہوں وہ سوال کرتے ہیں ”موجودہ مہنگائی کا شہباز شریف پر جو بوجھ ہے اس کا نواز شریف کیا کریں گے“۔ حالانکہ رومی صاحب کو علم ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نہیں لیتا تھا بلکہ مریم نواز  نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ عمران کا گند ہم نہیں اُٹھا سکتے۔ رومی صاحب یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ 2018 میں جو حالات تھے 10 اپریل 2022 کو جو ہو چکے تھے ملک کو دیوالیہ ڈکلیئر ہونے سے بچانے کے لیے جو محنت کی، پاکستان کی تنہائی ختم کی، اس کا تذکرہ کون کرے گا۔ پھر اپنے پروگرام میں عمران کی مقبولیت کی بات کریں گے حالانکہ عمران نیازی اپنے لحاظ سے 2013 میں مقبول ترین تھے اور 30/32 نشستیں حاصل کر سکے جبکہ ان کی ریاستی سطح پر سہولت کاری 2011 سے بھرپور انداز سے شروع ہو چکی تھی۔ 2018 میں آر ٹی ایس بٹھا کر ہر حربہ استعمال کر کے سادہ اکثریت بھی نہ لے سکے۔ کوئی ہے جو یہ بتائے، چلیں رومی صاحب ہی بتا دیں کہ نیازی صاحب کا نفرت، اقتدار، دشنام طرازی، الزام تراشی، کرپشن پروری، کذب بیانی، چائنہ کی قیمت پر امریکی دوستی کے علاوہ نظریہ کیا ہےِ؟ لا قانونیت پھیلانے والوں کے متعلق ان کے خیالات کیا ہیں لہٰذا رائے عامہ کو بہکانے کے بجائے حقیقت بتانا ہو گی۔ قارئین آپ گوگل کر لیں اور جناب ڈاکٹر مبشر حسن، جو گریٹ بھٹو صاحب کے وقت میں وزیر خزانہ تھے، کا انٹرویو سنیں جو نجم سیٹھی لے رہے ہیں۔ نجم سیٹھی کی بھرپور کوشش رہی کہ گریٹ بھٹو صاحب کے متعلق کوئی منفی بات وہ بھی ڈاکٹر مبشر حسن سے نکلوا سکیں۔ یقیناً یہ انٹرویو انہوں نے اس وقت کیا تھا جب ڈاکٹر صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو کے وقت میں پیپلز پارٹی چھوڑ چکے تھے۔ سیٹھی صاحب نے پھر سوال کیا کہ قادیانیوں کو اقلیت یا ختم نبوتؐ پر یقین کی نہ رکھنے والوں کو غیر مسلم قرار دلانے میں بھٹو صاحب پر کوئی دباؤ تھا؟ ڈاکٹر صاحب اُکتا کر بولے ”دیکھو تم مجھ سے پوچھو بھٹو ظالم تھے تو میں تمہیں اس کا جواب دوں جبکہ میں نے تو بھٹو کو غریبوں، ہاریوں، کسانوں، مزدوروں کے لیے روتے دیکھا ہے۔ دراصل تم نے کبھی سلطنت چلائی نہیں“۔ لالہ سراج الحق! آپ اپنا سوال بڑھائیے اور پوچھئے کہ طلبہ تنظیموں میں تشدد کون لایا؟ سیاست میں سہولت کاری کیسے آئی؟ سیاست کرپشن میں کب بدلی؟ عدالت سیاسی جماعت کے لیڈر کا حلقہ کب بن گئی؟ بیورو کریسی نے قوم کو غلامی سے آزاد کیوں نہ ہونے دیا؟ خاطر جمع رکھیئے ہر چیز اپنی اصل کو لوٹتی ہے۔ 1912 سے 1920 تک پاسپورٹ اور ویزے بن گئے تھے، دنیا کی حدود سرحدوں میں داخلے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت تھی، اب دنیا واپس ایک ہونے کو لوٹ رہی ہے۔ گو ویزے کی مدد سے مگر بہت سے لوگ اپنے ممالک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر ون ورلڈ آرڈر ہو گا اپنے عوام کا خیال نہ رکھنے والے ممالک کی حالت دنیا میں پسماندہ علاقوں جیسی ہو گی جس طرح ہمارے اپنے ملک میں بہت سے پس ماندہ علاقے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ذمہ دار کو جانتے ہوئے بھی ہم اپنی مرضی سے ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں۔ آج کی جمہوریت بھی نرالی ہے کہ فیصلہ ہو گیا، فلاں آئے گا…… آگ لگے اس جمہوریت کو جس میں ذمہ داری کا تعین ہی نہ ہو سکے۔ حالانکہ کے پی کے میں آپ عمران حکومت کے اتحادی تھے۔