پھلو ں کی چو ری کا مقدمہ

Dr Ibrahim Mughal, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

گز شتہ دنوں اخبا ر میں پھلوں کی ایک ریڑھی سے پھلوں کی چوری کی ایک دلچسپ خبر شا ئع ہو ئی۔ ہو ا یو ں کہ ریڑھی کا ما لک کچھ دیر کے لئے ریڑھی سے غیر حا ضر ہو اتو اس کی غیر مو جو دگی میں ایک مفلوک الحا ل شخص چند کیلے اور کچھ سیب اٹھا کر بھاگنے کو تھا کہ ریڑھی کے ما لک نے اسے اچا نک آ لیا۔وہ چو ر کو سیدھا تھا نے لے گیا۔
اخبار میں سا ئیکل چو ری کی ایک خبر شا ئع ہوئی۔ خبر کے مطا بق چور اپنے محلے کے ایک گھر کا دروا زہ کھلا دیکھ کر وہا ں پہ کھڑی سا ئیکل لے اڑا۔ راستے میں سا ئیکل کی چین اتر گئی۔ گبھر ا ہٹ میں وہ سا ئیکل کی چین تو نہ چڑ ھا سکا ،مگر پو لیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ سنا ہے کہ اب پھلو ں کی چوری کا مقد مہ عدالت میں ہے اور فیصلے کا انتظا ر ہے۔ مگر یہاں تولاکھوں کی تعداد میںمقد ما ت ا پنے فیصلو ں کی را ہ د یکھ رہے ہیں ۔ فی الو قت میں کسی اور مقد مے کی  بات نہیں کر تا، میں با ت کر تا ہو ں اس ملک کی دولت اند ھا دھند لو ٹنے وا لو ں کی ۔ محتر مہ فہمید ہ مرزا کے نا م سے کو ن وا قف نہیں۔ یہ مارچ 2008سے جو ن 2013تک پیپلز پا رٹی کے دورِحکو مت میں قومی اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پہ برا جمان رہیں۔ اور حالیہ دنو ں میں بھی ممبر قومی اسمبلی ہوتے ہوئے وفا قی وزیر کے منصب پہ فا ئز ہیں۔ لیکن حال یہ ہے کہ اپنی پو زیشن کا فائد ہ اٹھا تے ہوئے بینکوں سے لئے ہو ئے اسی کر وڑ کے قرضے معا ف کر ائے بیٹھی ہیں۔ مگر اس ملک میں کس کی ہمت ہے کہ ان سے کچھ با زپرس کرے۔اب یہا ں بیو رو کر یسی کے کھلائے ہوئے گلو ں کی با ت کی جا ئے تو شو کت عزیز کا ذکر کئے بغیر با ت مکمل نہیں ہو پاتی۔ دھیمے لہجے اور خوش گفتار ہونے کی بنا پر بابوئوں کے لا ئے ہو ئے شو کت عز یز نے میڈیا پر اپنے بے ضرر ہونے کا تاثر برقرار رکھا۔ پھر ہمیشہ خود کو بلیم گیم سے دور رکھا۔ اپوزیشن کو کبھی بھی اپنی سیاسی نشانے بازی پہ نہ رکھا۔ جب بھی اسمبلی کے اجلاس میں سوالوں کا جواب دیتے، تو اپنا ہر جملہ ’’جنابِ سپیکر‘‘ سے شروع کرتے۔ خوش لباس شوکت عزیز کا تعلق کراچی کے ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ اس وقت وہ دو ارب چودہ کروڑ ڈالر کے اثاثہ جات کے مالک ہیں۔ کیا کوئی بتائے گا کہ ایک متوسط پاکستانی گھرانے کا فرد اپنی زندگی میں اتنا پیسہ کیسے کما سکتا ہے؟ اگر کوئی کتابی دانشور یہ کہے کہ یہ سب اُن کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے، تو کو ئی و ہ را ستہ ہمیں بھی دکھا دے۔ سچ پوچھیں تو ان کتابی دانشوروں نے اس طرح کے شکل مو منا ں کر تو ت کا فرا ں کے جرائم پر پردہ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اپنے بارے میں اعلیٰ کردار شخصیت کا تاثر دینے والے شوکت کو وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے ڈھائی سو کے قریب تحفے ملے۔ لیکن ان میں سے ایک بھی توشہ خانے میں جمع نہیں کرایا۔ یہ سب تحائف اب ان کی مختلف ملکوں کی رہائش گاہوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔اور اب غیر ملکو ں سے ملنے والے تحا ئف کی بات چل نکلی ہے تو وزیرِ اعظم عمران خان ، جن کی ان کے چا ہنے والے ایک 
صفت گنوا ئے بنا نہیں رہ سکتے۔ وہ یہ کہ عمران خان ایما ن دار انسا ن ہیں۔ مگر اور کچھ نہیں تو غیر ملکوں سے ملنے والے تحا ئف وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر اپنے ذاتی استعما ل میںلا ئے ہو ئے ہیں۔ بہر حال ان تحائف کا ذکر تو یہاں محض اونٹ کے منہ میں زیرہ والی بات ہے۔ تاہم یہ بتانا مقصود ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے شوکت عزیز جیسے لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ چنانچہ وہ اس قسم کی اوچھی کرپشن میں بھی لتھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے وقت کے سربراہ جنرل مشرف تو ایک فوجی ذہن رہنے والے شخص تھے۔ بے دریغ دولت کمانے کے طریقے انہیں شوکت عزیز جیسے شاطر لوگوں نے سمجھائے۔ یہ شوکت عزیز ہی کا جنرل مشرف کو مشورہ تھا کہ حکومت   منافع میں چلنے والے بینکوں کو فروخت کرکے دولت کمائے۔ جنرل مشرف کی سمجھ میں بات آگئی اور شوکت عزیز کا لقمہ تر بنا حبیب بینک۔ اس وقت حبیب بینک کی جمع شدہ رقم اور اثاثہ جات کی ملکیت 94 ارب روپے تھی۔ لیکن اسے ان صاحب نے 24 ارب میں فروخت کردیا۔ مشہور خریدار نے پہلی قسط چھ ارب ادا کرکے بینک کا کاروبار سنبھال لیا۔ اس کے بعد بینک کا پہلے سال کا منافع 24 ارب روپے آیا جس میں سے اٹھارہ ارب روپے کی باقی رقم ادا کرکے بینک کی مکمل ملکیت حاصل کرلی۔ اس سلسلے میں میڈیا اگر کوئی سوال اٹھاتا تو یا تو اسے ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیا جاتا، یا پھر اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جاتا۔ شوکت عزیز وزیر اعظم بننے سے پہلے 27 برس سے بیرونِ ملک مقیم تھے۔ جس و قت وہ وزیراعظم بنے اس وقت تک ان کا پاکستانی شناختی کارڈ نہ بنا تھا۔ یہ بعد میں بنا۔ پھر حبیب بینک کی بولی مشرقِ وسطیٰ کی ایک پارٹی نے 32 ارب روپے بھی لگائی تھی۔ گو یہ بھی انتہائی نامناسب تھی، لیکن اس کو بھی کوئی لفٹ نہ کرائی گئی۔ یاد رہے کہ بینک کا ہیڈ کوارٹر جو حبیب بینک پلازہ کے نام سے جانا جاتا ہے، صرف اس کی مالیت اس وقت بائیس ارب روپے تھی۔ حبیب بینک کے بعد شوکت عزیز کی نظریں پاکستان سٹیل مل کی نجکاری پر ٹھہر گئیں۔ سٹیل مل جتنے رقبہ زمین پر واقع ہے، صرف اس کی قیمت اُس وقت چالیس بلین روپے تھی۔ جبکہ موصوف پو ر ی مل کو  21 بلین روپے کے عوض بیچنے پر تیار تھے۔ وہ تو اگر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس نہ لیا ہوتا تو آپ یہ کارنامہ بھی سرانجام دے چکے ہوتے۔2008ء میں مشرف حکومت کی معزولی ایک علیحدہ باب ہے۔ حکومت کی معزولی کے بعد جنرل مشرف ہر قسم کی سخت تنقید کا نشانہ بنے۔ جبکہ شوکت عزیز ملک سے یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پھر سابق وزیر اعظم نے کبھی مڑ کر دیکھنے کی تکلیف تک نہ گوارا کی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان دنوں شوکت عزیز لندن میں ایک بھارتی بزنس مین لکشمی متل کے ایڈوائزر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ کیا کسی طور بھی کسی پاکستانی وزیر اعظم کو یہ زیب دیتا ہے کہ اس شخص کے ساتھ کام کرے جس کا کاروباری تعلق نہ صرف بھارت سے ہو، بلکہ وہ خود بھی بھارتی ہو؟ یہ ہے وہ مقام جہاں کہنا چاہیے کہ کیا کوئی غیرت ہے؟ کوئی حیا ہے؟ امریکہ سے درآمد شدہ وزیر اعظم کے بعد ایک نام پیپلز پارٹی کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا آتا ہے۔ ان کے خاوند فیروز گلزار کے ذمہ بینکوں کے 56 ملین روپے جو بطور قرضہ واجب الادا تھے ۔ موصوفہ نے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ قرضہ جات معاف کرائے۔ یہی نہیں، ان کے والد کے ذمہ بھی جو بینک کے قرضہ جات واجب الادا تھے، معاف کرائے۔ پاکستانی ہوتے ہوئے کیسے ہم اس خاتون کو عزت کے ساتھ یاد رکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی صرف ایک سال کی آمدن کا ذکر کیا جائے تو کاغذات کے مطابق سالانہ 25 ملین روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ اور یہ موصوفہ سالانہ ٹیکس تین لاکھ روپے سے بھی کم ادا کرتی رہی ہیں۔ سالا نہ انکم ٹیکس کی ادا ئیگی سے یا دآیا کہ وزیرِ اعظم عمران خا ن نے اس سا ل اسی لا کھ روپے سے زیا دہ کا ٹیکس ادا کیا ہے۔جس سے اندا زہ ہو تا ہے کہ ان کی سالانہ آ مد ن اربو ں میں نہیں تو کر وڑوں میں تورہی ہو گی۔ مگر وہ کبھی نہیں بتا تے کہ ان کی آ مد ن کا ذریعہ کیا تھا۔ 
چلئے چھو ڑیے، کا لم کی طو ا لت کو مدِ نظر ر کھتے ہوئے آ یئے انتظا ر کرتے ہیں کہ عدالت پھلوں کی چو ری کے ملزم کو کیا سزا سنا تی ہے۔

مصنف کے بارے میں