ایک تیر، 3 نشانے

ایک تیر، 3 نشانے

وزیر اعظم عمران خان محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے اقتدار کے لئے خطرات بڑھتے جارہے ہیں ۔ اب تو ان کی باڈی لینگوئج بھی تھکے ہوئے انسان کی تصویر پیش کررہی ہے ۔ اپنے ہی اتحادیوں سے رابطے کرنا ، کبھی جہانگیر ترین کو فون کرکے احوال دریافت کرنا ، کبھی چودھریوں  کے گھر پر حاضری ، پر اعتماد ہونے کی نہیں شدید اضطراب کی علامت  ہے ۔انہوں نے اپنی دانست میں اسی دبائو کا توڑ کرنے کے لئے قوم سے خطاب کیا جو سوائے پی ٹی آئی سوشل میڈیا سیل اور ان کے حامی چند میڈیا ہائوسز کے کہیں بھی مثبت خبر نہ بن سکا۔ ہمیشہ کی طرح یہ تقریر بھی تضادات کا مجموعہ تھی ۔ انہوں نے افغان جنگ کے دوران ڈرون حملوں کی ذمہ داری سیاسی حکومتوں پر ڈالنے کی کوشش کی ۔ بچے بچے کو پتہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہ تھا ۔ خود عمران خان اس وقت ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہوئے  جنرل مشرف کے بڑے وکیل کے طور پر دلائل دیتے رہے ۔ وہ وزیر اعظم بننے کی امید لگائے بیٹھے تھے جو پوری نہ ہونے جنرل مشرف کے خلاف ہوگئے ۔ باقی سب فسانہ ہے۔عمران خان نے اپنے خطاب میں جنگ میڈیا گروپ سے لے کر نجم سیٹھی تک اہل صحافت کو تنقید کا نشانہ بنایا ، یہ عمل بذات خود کمزوری کی دلیل ہے ۔ بدنام زمانہ پیکا ایکٹ کی حمایت کرتے ہوئے خود کئی ایسی باتیں کرگئے جو صریحاً حقائق کے منافی ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ بہتر کون جانتا ہوگا کہ جب انہیں حکومت میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تو اسی ہائبرڈ منصوبہ بندی کا سب سے بڑا ہتھیار مخالفین کے خلاف دن رات جھوٹا پراپیگنڈہ کرنا تھا ۔ اس خطرناک حد تک کہ لوگوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہو گئے۔ اس سلسلے میں تیار کیا گیا ’’دنیا کا سب سے بڑا سوشل میڈیا سیل‘‘ اور اسکے آلہ کار آج بھی سرگرم ہے ۔ اربوں روپے ماہانہ خرچ کیے جارہے ہیں ۔ایجنڈا آج بھی وہی ہے مگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ، سیاسی کارکنوں ، عام لوگوں کے غیر منظم جوابی حملوں نے سارا منصوبہ چوپٹ کر دیا۔ چند سال قبل جب ہائبرڈ پراپیگنڈہ پراجیکٹ کے تخلیق کاروں میں سے ایک کو یہ مشورہ دیا کہ آپ جو کچھ کررہے ہیں وہ پلٹ کر واپس آئے گا تو انہوں نے بڑی رعونت سے بات سنی ان سنی کردی تھی ۔ آج سوشل میڈیا تو کیا گلی محلوں میں وہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں پہلے جن کا ذکر کرتے ہوئے زبان ہی نہیں جسم بھی کانپ جایا کرتے تھے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹا پراپیگنڈہ اور ذاتی حملے حکومتی سائیڈ سے ہی کئے جارہے ہیں ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتی و ریاستی عہدیداروں میں برداشت بہت کم ہے ۔ جیسے ہی کوئی ان کی کوتاہیوں ، کرپشن ، بری کارکردگی ، جھوٹے دعوئوں کا ذکر کرے اس کو سرکاری اداروں اور وسائل کے ذریعے سبق سکھانے پر اتر آتے ہیں ۔ اسی آمرانہ اور پست سوچ نے ملک کے اچھے بھلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ کو صفر کرکے رکھ دیا ۔ پیکا ایکٹ کے ذریعے زبان بندی کرانے کا خواب پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔کئی مرتبہ وزیر اعظم کی اپنی باتیں صریحاً غلط بیانی کے زمرے میں آتی ہیں ۔ ان کے اعداد و شمار بھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جیسے اپنے گھر بیٹھ کر گھڑے ہوں ۔ اپنے تازہ ترین خطاب میں وزیر اعظم نے یہ تو نہیں بتایا کہ ان کی حکومت نے صرف تین سال کے عرصے میں ملک پر قرضے چڑھانے کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے ، اسے توڑ پانا مدتوں تک ممکن نہ ہوگا ۔ مگر یہ ضرور فرما دیا کہ کو رونا کے بعد بھارت کا بہت برا حال ہے ۔ اسکی شرح نمو منفی ہوچکی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کہا کہ آجکل ہر ایک کے پاس موبائل ہے ، گوگل کریں سب پتہ چل جاتا ہے ۔ وزیر اعظم اپنا ہی فون سے چیک کرلیتے تو علم ہوجاتا کہ بھارت کا گروتھ ریٹ 8فیصدسے زیادہ ہے ۔مسلم ممالک سمیت ساری دنیا بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لئے مری جاری ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان خود بھی پہلے دن سے اسی صف میں کھڑے ہیں مگر مودی فون نہیں سنتا ۔ اسی طرح عوام کو ریلیف کے نام پر دس دن پہلے پٹرول 12 روپے فی لیٹر اور اسی روز بجلی چھ روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کے بعد دونوں کے نرخوں میں بالترتیب دس اور پانچ روپے کم کرکے جو پٹاخہ چلانے کی کوشش کی گئی وہ ٹھس ہوگئی۔آئی ایم ایف 
کے شکنجے میں آنے کے بعد معاشی خود مختاری اور بحالی کے اعلانات  بالکل ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانات جیسے ہیں۔ بہر حال نرخوں میں کمی کے اس اعلان سے قوم کو یہ تو پتہ چل گیا کہ حکومت کے بے تحاشا اخراجات پورا کرنے کے لئے بجلی اور پٹرول ہی نہیں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بھی غیر ضروری اضافہ کرکے عام آدمی کو نچوڑا جارہا ہے ۔ غضب خدا کا وزیر اعظم خود بنی گالہ سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ تک ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں اور قوم کو سادگی کا بھاشن دیا جاتا ہے ۔سادہ سا حساب کتاب ہے کہ صرف وزیر اعظم کے پروٹوکول پر اربوں کا خرچہ ہورہا ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ پاکستان اپنی آزاد خارجہ پالیسی کی راہ پر چل پڑا ہے ۔ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ روس اور چین کا حوالہ دے کر اسے کامیاب قرار دیا۔ مبصرین کے مطابق یہ بھی ہوائی فائر ہے ، ہمارے تمام تر معاشی مفادات مغرب اور اسکے زیر اثر ممالک سے جڑے ہوئے ہیں ۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر سی پیک کو لٹکانے کرنے کے لئے جو سہولت کاری کی گئی اس سے چینی حکام خوش نہیں بلکہ اپنی ناراضی کا اظہار کررہے ہیں ۔ دورہ روس ایک ایسی مشق تھا کہ اگر نہ کیا جاتا تو نقصان ہوتا اور اگر کرلیا گیا ہے تو زیادہ نقصان ہوگا ۔ یوکرائن سے جنگ کے بعد لگنے والی عالمی پابندیوں کے سبب ہم تو کیا کوئی بھی ملک روس سے معاہدے کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا ۔ سو دورہ روس کے حوالے سے یہی دعا ہے کہ پاکستان پر اس سے منفی اثرات کم سے کم پڑیں ۔ وزیر اعظم کے باقی دعوئوں کا بھی پوسٹ مارٹم کیا جا سکتا ہے مگر یہ محض وقت کا زیاں ہوگا ۔سیاسی منظر نامے پر ایک دلچسپ پیش رفت پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ ہے ۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں جاری اس شو میں لوگوں کی تعداد ہی نہیں جوش و خروش بھی غیر معمولی ہے ۔ بلاول بھٹو ، وزیر اعظم عمران خان پر بہت تندوتیز حملے کررہے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ تمام اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کرائے جائیں ۔ پیپلز پارٹی نے کچھ عرصہ قبل جب اس لانگ مارچ کا شیڈول جاری کیا تھا تو حکومتی حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ آصف زرداری کا سیاسی طور پر متحرک ہوکر ملاقاتیں کرنا اور احتجاج کی کال بے مقصد نہیں بلکہ ایسا کسی ٹھوس اشارے یا ضمانت پر کیا جارہا ہے ۔ حکومت نے پیپلز پارٹی کی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کے لئے پہلے حملہ کرنے کی کرنے کوشش کی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر علی زیدی وغیرہ کو ٹاسک دئیے ۔ وفاقی حکومت کی مکمل سپورٹ کے ساتھ پی ٹی آئی سندھ کے میدان میں اتری تو پذیرائی نہ ہونے کے برابر رہی ۔ ان دنوں ایک اور چیز نوٹ کی جارہی ہے ۔ وہ ہے مسلم لیگ ن کا دبک کر ایک کونے میں بیٹھ جانا ۔آئی ایس آئی کے سربراہ سے منسوب اس خبر کے شائع ہونے کے بعد کہ ایجنسی کے تمام افسروں اور اہلکاروں کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا گیا توقع کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ ن زیادہ متحرک انداز میں سامنے آئے گی ۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد حکومتی ارکان تو بوکھلا کر ادھر ادھر رابطے کرتے نظر آرہے ہیں مگر ن لیگ خود کو قدرے خاموش اور الگ رکھے ہوئے ہیں ۔ باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اگر موجودہ سیاسی ہلچل میں ٹارگٹ وزیر اعظم عمران خان ہیں تو ساتھ ہی یہ کوشش بھی ہورہی ہے کہ مسلم لیگ ن کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے ۔ آصف زرداری کے ذریعے پنجاب کی وزارت اعلیٰ ق لیگ کو دلوانے کی کوشش کی گئی تو ن لیگ کے اندر سے ہی سخت مخالفت کی گئی ۔ پارٹی کے ایک ’’ صلح جو ‘‘ گروپ کی یہ رائے مانی نہیں گئی کہ اگرچہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہوں مگر وزارتیں ہمارے پاس ہوں تو ق لیگ کیا کرلے گی ۔ یہ مثال بھی دی گئی کہ جنرل مشرف کے دور میں ایک پیج کے انتہائی طاقتور وزیر اعلیٰ رہ کر بھی پرویز الٰہی پارٹی کے لئے کچھ نہ کرسکے ۔ ق لیگ آج بھی ٹانگے کی پارٹی اور صرف تین ، چار سیٹیں جیتنے کے لئے بھی اسٹیبلشمنٹ کی دست نگر ہے ۔وزیر اعظم عمران خان جس کو مرضی مل لیں ، ن لیگ جتنی بھی خاموش ہوکر بیٹھ جائے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا کھیل کسی بڑے اشارے پر شروع کیا گیا ہے ۔ بظاہر یہ سال تبدیلیوں کا سال ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ سے لے کر حکومت تک اور حکومت سے لے کر اپوزیشن تک سب اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کردئیے جائیں گے ۔ کسی کے لئے بھی خطرہ ٹلا نہیں ۔ معاملات پٹڑی سے اتر چکے ہیں ، ٹریک پر لانے کے لئے کوئی نہ کوئی قربانی دینا پڑے گی۔لیکن جو کچھ بھی ہو عام آدمی کا بھلا ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ۔ ایک آئیڈیل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پورے اختیارات کے ساتھ آگے بڑھیں اور اہم پوسٹوں پر اپنے من پسند افسروں کو تعینات کردیں ۔ اس خرابی سے پیدا ہونے والا بگاڑ ملک کو حقیقی تبدیلی کی طرف لے جانے میں ممدو معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ایک طاقتور لابی کا وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کا ٹارگٹ پورا ہو جائے ، ساتھ ہی کوئی بڑا سرکاری افسر بھی رخصت ہو جائے ۔اور مسلم لیگ ن کو بھی کاٹ کر اس کاسائز چھوٹا کر دیا جائے مگر یہ آسان نہیں ۔ پہلے تو یہ مد نظر رکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کی صورت میں جرنیلوں ، ججوں اور بااثر سرکاری افسروں کی فیملیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل گیا ہے جہاں سے وہ براہ راست سیاست اور حکومت کررہی ہیں ۔ میڈیا میں آنے کی لت بھی لگ چکی ہے ۔ یہ عادت آسانی سے چھوٹنے والی نہیں۔ رکاوٹ صرف عمران خان نہیں بلکہ ان کی پارٹی میں شامل کرائے جانے والے ’’ معزز خواتین و حضرات‘‘ بھی ہیں ۔لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فوج میں تقرر اور تبادلوں کے طے شدہ طریق کار کے اندر کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ڈی جی آئی ایس آئی وہی افسر مقرر ہواجس کا نام ادارے نے خود ہی دیا تھا۔ وزیر اعظم کی جانب سے غیر ضروری تاخیر نے صرف بدمزگی پیدا کی ۔ اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ آئندہ کسی کو ایسی صورتحال پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے اسکی اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسے جنرل مشرف ختم کرسکا نہ بعد والے ، آگے بھی ایسا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اتنی گمبھیر صورتحال کے باوجود یہ طے ہے کہ ایک تیر سے تین نشانے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مارچ کا مہینہ اہم ہے ۔ ہائبرڈ نظام مکمل طور پر فیل ہوچکا ، اگلا سسٹم کیسے چلے گا ؟ کچھ واضح نہیں۔

مصنف کے بارے میں