اپوزیشن کامیاب

اپوزیشن کامیاب

کل صبح ٹی وی آن کیا تو قومی اسمبلی کے بارے میں خبریں اور کمنٹری چل رہی تھی۔ اپوزیشن اور تحریک عدم اعتماد کے حق میں 199 اراکین جبکہ حکومت کے حامیوں کی تعداد 140 بتائی جا رہی تھی۔ سب کچھ خبروں میں آ چکا ہے۔ دوسری جانب پنجاب میں میاں حمزہ شہباز کا پرویز الٰہی پر پلڑا بھاری تھا، وہ 200 سے زائد اراکین کے ساتھ اسمبلی میں موجود رہے۔ عمران خان سابق وزیر اعظم کا سرپرائز دراصل ڈپٹی سپیکر اور عمران خان کا صریحاً غیر آئینی اقدام ہے۔ تلوار سے بننے والی حکومت تلوار سے ہی جایا کرتی ہے۔ غیر آئینی اور سلیکٹیڈ حکومت بھی غیر آئینی طریقہ سے ہی جایا کرتی ہے گو کہ اپوزیشن نے اس کو آئینی طور پر عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی مگر فسطائیت، نااہلیت اور غیر آئینی حکمران ذہنیت نے اپنی ذہنیت کو عملی جامہ پہنایا۔ دراصل عمران خان اپنے خلاف آئندہ ہونے والے احتساب سے بھاگے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ فواد چودھری کا لیٹر گیٹ سکینڈل جواز تو اسٹیبلشمنٹ نے ہی رد کر دیا تھا کہ اس کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ ارشاد بھٹی کے استدلال بھی لاجواب ہیں کہ اگر حکومت جعلی، سلیکٹیڈ ہے تو بہت اچھا دوبارہ انتخابات ہوں، چار سالہ حکومت میں غیر آئینی قانون سازی جو آرڈیننس کی بنیادوں پر ہوئی۔ جو آئین، قوم اور ملک کا بیڑا غرق کیا، اس کا حساب کون دے گا، آئین کی حیثیت کیا ہو گی۔ مجھے حیرت ہے کہ ارشاد بھٹی کس حیثیت سے قانونی رائے دے سکتے ہیں، ایک جانبدار آدمی ہیں، نہیں پتہ ہوتا تو کسی سے مشورہ کر لیا کریں۔ غیر آئینی فیصلے کو کیسے کور کر رہے ہیں۔ عمران خان جمہوری تھا، ہے نہ ہو گا۔ لکھ کر دیا تھا کہ یہ مارچ میں سابق ہو چکا ہو گا۔ مارچ نہیں تو 3 اپریل سہی۔ آئینی، اخلاقی، سماجی، معاشرتی طور پر اس ٹولے کو ایک دن بھی حکومت کرنے کا حق نہ تھا۔ کل کے فیصلے میں دراصل عمران خان احتساب سے بھاگا ہے۔ ایک ٹی وی کے پروگرام میں مریم نواز نے کہا کہ مسز عمران کی سہیلی جو پنجاب کی کارمختار ہے کے قصے کھولیں گے، سکینڈل بنیں گے۔ دراصل یہ سکینڈل نہیں حقیقتیں ہیں۔ پنجاب حکومت میں کھڑکی توڑ کرپشن ہوئی جس کے ڈانڈے بنی گالہ سے ملتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنے آخری گیند تک لڑنے کے دعوے سے گراؤنڈ سے وکٹیں، گیند لے کر بھاگ گئے۔ ڈپٹی سپیکر آف اسمبلی کی رولنگ آئین کے منافی ہے۔ اگر یہ بنیادی اور آئینی تقاضے کے خلاف ہے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے اور اگر عدالت اس رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو پھر وقت انہی ساعتوں سے شروع ہو گا جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا۔ آخری گیند تک لڑنے والا سرپٹ دوڑ لگا گیا۔ کل صبح حضرت امام حسینؓ کی مثال کے ساتھ ٹویٹ کرنے والا اسمبلی کے اعتبار سے پاکستان کی تاریخ کا بھگوڑا ترین سیاست دان ثابت ہوا۔
عمران خان اور حکومت کا سرپرائز اس نامرد کی طرح ہے جو سہاگ رات کو اپنی نوبیاہتا کو سرپرائز دیتا ہے کہ وہ عورت کے قابل ہی نہیں۔ مبینہ غیر ملکی سازش کے الزام کو ملکی سکیورٹی ایجنسی نے باقاعدی انکوائری کے بعد مسترد کیا۔ اس سازش کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملا، خود ساختہ خط کو بنیاد بنا کر ڈپٹی سپیکر کا غیر آئینی اقدام اور فیصلہ اس ملک کی بنیادوں میں نئی بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف ہے۔ احتساب سے بھاگنے کے لیے اسمبلی سے بھاگنا عمران خان کی ضرورت تھی۔ عمران خان نے پہلے کہا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے استعفیٰ، عدم اعتماد کا مقابلہ یا نیا انتخاب کا کہا تھا پھر دوبارہ کہا کہ یہ بیان بدل دیا کہ اپوزیشن نے اسٹیبلشمنٹ کو بھیجا تھا۔ پھر اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ اس نے ہمیں بلا کر مشورہ اور مدد مانگی تھی۔ حیرت ہے ایسا شخص وطن عزیز پر چار سال حکومت کر گیا۔ امریکہ کی سازش کو قاسم سوری، پرویز الٰہی، فواد چودھری اور شیخ رشید ناکام بنائیںگے؟ اگر عمران خان کو ہٹانا ہی عالمی سازش تھی تو یہ سازش عمران خان نے خود کامیاب کر دی۔ بس! فائدہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر احتساب سے بچ گئے۔ اسمبلی کے اجلاس کا باقاعدہ شیڈول جاری ہوتا ہے 3 اپریل کو ایجنڈے پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تیسرے نمبر پر تھی۔ پہلے دو نمبر نظر انداز کر کے فواد چودھری کو تحریک عدم اعتماد پر بات کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس نے چند منٹ ہانپتے ہوئے خط، بیرونی سازش اور دیگر باتیں کیں جس پر ڈپٹی سپیکر اسمبلی نے تحریک پیش کرنے والوں کو تو پوچھا تک نہ اور ایک ریڈی میڈ رولنگ پڑھ دی جس کو پڑھتے وقت دونوں ہاتھ کرسی کے بازوؤں پر تھے کہ بھاگنے میں تاخیر نہ ہو۔ حیرت کی انتہااس وقت ہوئی جب سب پڑھ کر نیچے اسد قیصر اسمبلی سپیکر کا نام پڑھ دیا جس نے کارروائی کو کنڈکٹ ہی نہیں کیا۔ اس کی طرف سے رولنگ دے دی گئی۔ اگلے لمحے سابقہ وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دی اور اگلے لمحے اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ ریاست مدینہ، حضرت امام حسینؓ اور دنیا کے بڑے بڑے رہنماؤں کا نام لینے والا ایسے بھاگا جیسے پیچھے موت لگ گئی ہو۔ شاہ محمود قریشی مجاور کہتا ہے کہ مجھے ترک وزیر خارجہ کا فون آیا۔ عمران نیازی کہتا ہے کہ مجھے باہر سے بڑے فون آئے کہا کیا ہو رہا ہے، یعنی تمہیں حاکم رہنا چاہئے۔ اور خود ہی راہ فرار اختیار کر گیا۔ اس کی حکومت کے خاتمہ کا الزام اپوزیشن پر کبھی نہیں آ سکتا البتہ انہوں نے اس کی غیر مقبولیت، ایوان کا عدم اعتماد ثابت کر دیا۔ حکومت نے قوم کے اعصاب پر سوار ہو کر تحریک عدم اعتماد کا بہت وقت برباد کیا۔ قوم کے ساڑھے تین سال برباد کیے، 45سال میں جو بنا تھا برباد کیا۔ نظام معاشرت برباد کیا۔ بدزبانی، بدتمیزی، بے حیائی اور وہ بھی نعوذ بااللہ ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نام پر اس نے قوم کا شیرازہ بکھیر دیا۔ کئی سال درکار ہیں قوم کو اب اپنے سفر کو دوبارہ جاری کرنے کے لیے۔
 بد نصیبی ہے اس ملک اور قوم کی، یہ شخص ملک میں انارکی، لاقانونیت، خانہ جنگی کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اس کے خلاف عدم اعتماد آئی، تمام پاپڑ بیلے بالآخر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اپوزیشن کامیاب ہوئی، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، عمران خان کی حکومت ختم ہوئی۔ اب غیر آئینی، غیر اخلاقی طور پر ڈھٹائی کے ساتھ جس انداز میں انٹرویو دیتا ہے، بڑا حوصلہ ہے ان لوگوں کا جو اس کی بات سنتے اور یقین کرتے ہیں۔ قوم کا شیرازہ بکھیرنے والا حاکم ہو تو عالمی طاقتوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس کے خلاف سازش کریں۔ نااہل ناکام ہوا، تاریک دور ختم ہوا، اپوزیشن کامیاب ہوئی، اب عدالت کے فیصلے کی مہر تصدیق باقی ہے جس کا قوم انتظار کرے گی۔ ابھی تک اپوزیشن کامیاب ہے اس کی حکومت ختم کرنے، اس کی مقبولیت کا بھانڈہ پھوڑنے اور اس کو بزدل ثابت کرنے میں۔

مصنف کے بارے میں