اور… قطرجیت گیا

اور… قطرجیت گیا

ہم تو سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کرکٹ کی دیوانی ہے ۔لیکن کرکٹ کا بخار صرف برطانیہ اور برصغیر سمیت دنیا کے ان ممالک میں ہی عام ہوتاہے کہ جو کبھی برطانیہ کے غلام رہے ہیں۔ورنہ عالمی سطح پر جس کھیل کی پذیرائی ہے وہ فٹ بال ہے۔ طاقت ،تھرل اور جھپٹنا پلٹنا پلٹ کا جھپٹنا کی عملی تصویر ۔
 قطر کو 12سال پہلے 2010میں قرعہ اندازی کے ذریعہ فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کی میزبانی ملی ۔یہ ایک عالمی اعزاز بھی ہے اور وسیع پیمانے پر دنیا بھر کے سیاحوں کو متوجہ کرنے کا ایک ذریعہ بھی ۔بہرحال قطر نے 12سال میں اپنے آپ کو بہترین میزبان ثابت کرنے کیلئے دن رات ایک کردیئے ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے جدید ترین اسٹیڈیم کھڑے ہوگئے ۔کئی نئے فائیو سٹار ہوٹل وجود میں آئے ،سڑکوں کی تعمیر نو ہوئی ،دنیا کے معروف شاپنگ مالز اور کئی فوڈ سٹریٹس کا جال بچھایا گیا ۔اس سارے عمل پر تین سوبلین ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ۔ظاہر ہے ورلڈ ٹورنامنٹ کی میزبانی کوئی معمولی بات نہیں ،یہ تو عالمی سطح کا ایک اعزاز ہے ۔
جب قطر نے دنیا بھر کے ملکوں ،عالمی سطح کی فٹ بال ٹیموں اور لاکھوں تماشائیوں کا خیر مقدم کیا تو یہ بھی کہا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔اھلا وسھلا مرحبا !جی آیاں نو ں ،بھلی کریو آیو،پخیر راغلے ،ویلکم ۔۔لیکن ہم آپ سے امید رکھتے ہیں کہ آپ ہماری روایات اور ثقافت کا احترام کریں گے ۔سرعام شراب نوشی نہیں کریں گے ۔ہم جنس پرستی کے جھنڈے نہیں لہرائیں گے ۔عریانی و فحاشی کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوگا۔اس اعلان پر نام نہاد مہذب دنیا بائولی ہوگئی ۔اس اعلان کو انسانی حقوق پر ڈاکہ قرار دیا ،بائیکاٹ قطر کی تحریک اٹھانے کی کوشش ہوئی لیکن قطر ڈٹ گیا ۔اربوں ڈالر کے نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سیکورٹی چیئرمین عبد العزیز بن عبد اللہ انصاری نے کہا کہ ہم 28دنوں کیلئے اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتے فیفا کے چیئرمین جیانی الفین ٹینو نے پریس کانفرنس میں یورپ کے اس غیر مہذب طرز عمل کی کھل کر مذمت کی ،قطر کا کھل کر ساتھ دیا اور اعلان کر دیا کہ جس نے آنا ہے آئے ،جس نے نہیں آنا وہ خصماں نو ں کھائے ۔انٹرنیشنل مقابلوں کا آغاز ہوتا ہے تو موسیقی کی دھنوں پر رقص ہوتے ہیں۔آتش باز ی کے رنگا رنگ شرارے بکھرتے ہیں،حسینان عالم کی فیشن پریڈ ہوتی ہے ۔لیکن قطر نے یہاں بھی سب کو حیران کردیا ۔فیفا ورلڈ کپ ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ پانچ سو اٹھاون افراد نے اسلام قبول کرلیا ۔ان سب کے اسلام قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ کیلئے دنیا بھر سے سینکڑوں علمائے کرام اور سکالرز منگوائے ہیں جو مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔دوہزار مقامی علماء کرام بھی ورلڈ کپ کے مہمانوں میں دعوت دین کا کام کر رہے ہیں۔ملک بھر کی مساجد کے موذن تبدیل کرکے دلکش آوازوں والے موذن مقرر کردیئے گئے ہیں۔تمام مساجد کو اسلامی میوزیم کے طور پر پیش کیا گیا ۔جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی آکر اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرسکتا ہے ۔ملک بھر میں قرآنی آیات ۔احادیث اور تاریخ اسلامی کے نمایاں فلیکسز اور بل بورڈز لگائے گئے ہیں۔قرآن مجید کے تراجم اورمختلف زبانوں میں اسلامی تاریخ و سیرت کی کتب بانٹی جارہی ہیں۔ہراسٹیڈیم میں باجماعت نماز کی نمایاں جگہ موجود ہے ۔ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت عالمی مبلغین کو مدعو کیا گیا ہے ۔گویا کہ قطر نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اسلامی کلچر کیا ہے ؟قطر نے جدیدیت کے مطلوب تقاضے بھی پورے کئے اور اپنے دین کی بنیادوں کو بھی پوری طرح قائم رکھا ۔کسی بھی طرح کا معذرت خواہانہ ،مرعوبیت کا طرز عمل اختیار نہیں کیا ۔ہمارے ہاں جس طرح مغرب کی ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھا جارہا ہے ،گلوبل ازم کے نام پر ٹرانس جینڈر ایکٹ ،گھریلو تشدد قوانین کے نام پر بچیوں کو ماں باپ بڑے بہن بھائیوں ،دادا ،دادی کی تربیت و نگرانی سے آزاد کرنا ۔ویلنٹائن ڈے ،نیو ایئر نائٹ کو اپنا کلچر بنانے جیسے اقدامات کرنے کو کوئی عیب، کوئی جرم اور کوئی معاشرتی برائی نہیں سمجھ رہے ۔ہمیں قطر سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ورلڈ کپ جیتے نہ جیتے ،قطر نے تحفظ تہذیب اسلامی کا میڈل جیت لیا ہے اور اصل میڈل تو اللہ رب العالمین کے پاس ہے ۔