آئی ایم ایف سے معاہدہ ……

آئی ایم ایف سے معاہدہ ……

ہم، پاکستانی، ہماری حکومت، حکمران 9 مہینے سے 1.1 ارب ڈالر کے عالمی قرضے کے لئے آئی ایم ایف کے ہی نہیں، امریکہ، برطانیہ، یورپ اور نجانے کن کن ممالک کے ترلے منتیں کر رہے تھے ہماری ساکھ ہماری نیشنل کریڈیبلٹی داؤ پر لگ چکی تھی۔ اندرون ملک سیاستدانوں، ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا ایک طبقہ پاکستان کے ڈیفالٹ کر جانے کی خبریں بڑے زور و شور سے دے رہا تھا ایک عوام و قوم دشمن جماعت تو تسلسل کے ساتھ ایسا کہہ رہی تھی اس جماعت کی دو صوبائی حکومتوں نے تو اس حوالے سے خطوط بھی لکھ ڈالے تھے کہ پاکستان کو قرض کی حتمی قسط نہ دی جائے اس کا مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے اور پی ڈی ایم و پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ لگ جائے۔ کچھ ن لیگی ماہرین بشمول مفتاح اسماعیل تو بڑے شدومد کے ساتھ حکومتی ناکامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے جبکہ شہباز شریف، اسحاق ڈار اور دیگر اتحادی سیاستدان قوم کو تسلیاں دیتے ہوئے تھکتے نہیں تھے 30 جون جاری معاہدے کی تکمیل کی آخری گھڑی تھی اگر یہ بھی گزر جاتی تو پاکستان کے معاشی معاملات میں مزید مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہو جاتیں۔ لیکن الحمدللہ ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو گیا، 1.1 ارب ڈالر کے حصول کی نو ماہی کاوشیں رنگ لے آئیں۔ ہمیں 9 ماہی معاہدے کے تحت 3 ارب ڈالر ملیں گے۔ جولائی کے مہینے میں، معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو جائیں گے اور اسی ماہ طے شدہ رقم ملنا شروع ہو جائے گی۔ شکر الحمدللہ پاکستان بہت بڑی مشکل سے بچ نکلا ہے کم از کم 9 مہینے کے لئے ہمیں، ہماری معیشت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان 9 مہینوں کے دوران 3 حکومتوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو طے کردہ ضوابط اور آئینی تقاضوں کے مطابق نبھانا ہوگا۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو 13 اگست 2023 کی رات کے 12 بجے تک قومی سیاسی و اقتصادی معاملات کو لے کر چلنا ہے کیونکہ اس کے بعد نگران حکومت قائم کی جانی ہے جو دو مہینوں کے اندر اندر عام انتخابات کرانے کی پابند ہوگی۔ نومبر 2023 تک ملک میں نئی مرکزی اور صوبائی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔ اس طرح 9 مہینوں کے دوران ان تین حکومتوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا جو آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائے ایگریمنٹ میں طے کئے گئے ہیں ہم اس معاہدے کے تحت بہت کچھ کرنے کے پابند ہو چکے ہیں آئی ایم ایف ہماری کارگزاری کو براہ راست مانیٹر کر رہا ہے ہماری ایک
ایک پالیسی، ہمہ وقت کارگزاری کا عینی شاہد ہے اسے دھو کہ دینا اور کسی قسم کی چالاکی دکھانا اب ممکن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی ہماری قومی معیشت میں مثبت رجحانات کی بھر مار ہونے لگی ہے سٹاک مارکیٹ پہلے روز ہی 2230 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ اوپن ہوئی انڈکس 5.6 فیصد کے اضافے کے ساتھ 43783 پوائنٹس پر بند ہوا۔ یہ تاریخی بڑھوتری ہے مارکیٹ میں 8 ارب 64 کروڑ روپے سے زائد مالیتی 38 لاکھ شیئرز کے سودے ہوئے اوپن مارکیٹ میں ڈالر 5 روپے سستا ہو کر 285 روپے کا ہو گیا۔ سونے کی فی تولہ قیمت میں 8800 روپے کی کمی واقع ہوئی۔ یہ سب باتیں صرف اس وجہ سے ہوئی ہیں کہ آئی ایم ایف کی طرف سے معاہدہ ہونے کا سگنل ملا ہے معاہدہ فی الامر، ایگزیکٹو بورڈ کے 12 جولائی کے اجلاس میں حتمی شکل اختیار کرے گا، مہنگائی میں بھی کمی کا رجحان نظر آنے لگا ہے لیکن دوسری طرف معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو گا۔ ڈیزل کی قیمت پہلے ہی بڑھا دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی روشنی میں تقریباً 450 ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی لاگو ہو چکے ہیں۔ ریاست پر بوجھ بنے ہوئے بیمار سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل بھی شروع ہونے والا ہے۔ پنشن کے خاتمہ کی ابتدا بھی ہوا چاہتی ہے، سرکاری ملازمین کی طے شدہ شرائط ملازمت میں بھی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے، شرح سود میں 1 فی صد اضافہ پہلے ہی کر دیا گیا ہے اس طرح 22 فی صد شرح سود کے ساتھ کاروبار تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ شنید ہے کہ آئی ایم ایف شرح سود کو مزید بڑھانے پر زوردے رہا ہے گویا معاشی ترقی کا احیا سردست ممکن نہیں ہو گا، 90 لاکھ سے زائد نفوس پہلے بھی خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور نجانے کتنے مزید نیچے لڑھکنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ہماری قومی اقتصادی صورتحال لاریب شدید مشکلات میں دھنسی ہوئی ہے جبکہ انفرادی معاشی صورتحال کا تو کچھ نہ ہی کہیں تو بہتر ہے، سادہ روٹی 25 روپے اور خمیری روٹی 30 روپے کی ہوچکی ہے، سادہ خوشبو والا پان 25/30 روپے بڑھ کر 50 روپے کا ہو گیا ہے سگریٹ کی قیمتیں بھی نا قابل برداشت ہو چکی ہیں، اشیاء خورونوش کی قیمتیں پہلے ہی بلندی پر جا چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کی نئی شرائط کے مطابق وصولیوں کے اہداف میں بلندی کیسے حاصل کی جائے گی؟ یقینا ٹیکسوں کے ذریعے۔ اور یہ ٹیکس وصولیاں کس سے کی جائیں گی؟ یقینا عوام سے، عام آدمی سے، عام صارف سے۔ کیونکہ صنعتیں اور بڑے کاروبار پہلے ہی بربادی کا شکار ہیں۔ اس لئے ان سے تو وصولیاں ہونے سے رہیں۔ ٹیکس وصولیوں کا بوجھ عام آدمی کو ہی اٹھانا ہوگا۔ مہنگائی کا سب سے آسان شکار سرکاری ملازم ہوتا ہے، ٹیکسوں میں اضافے کا بوجھ بھی سب سے زیادہ سرکاری ملازم ہی اٹھاتا ہے سرکاری ملازم پہلے ہی اپنی تنخواہوں اور پنشن میں کم اضافے پر پریشان ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس اضافے میں بھی کمی کر دی ہے 35 فی صد اضافے کو 30 فی صد اور پنشن کے 17.5 فی صد اضافے کو 5 فی صد کر کے سرکاری ملا زمین پر ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ سرکاری ملازمین کی ایسی بے اطمینانی، کارسرکار پر بھی بری طرح اثر انداز ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران اور پالیسی ساز اس بات پر سنجیدگی سے توجہ دیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے برے اثرات پر قابو پانا تو مانا کہ ان کے بس میں نہیں لیکن سرکاری ملازمین پر تنخواہوں اور پنشن میں بڑھوتی پر کٹ نہ لگا کر ان کے مصائب میں اضا فہ نہ کرنا تو ان کے ہاتھوں میں ہے اس لئے پنجاب کے حکمرانوں اور وہ بھی عارضی حکمرانوں کو چاہئے کہ خدا کا خوف کریں اور ملازمین میں بے اطمینانی کو بڑھاوا نہ دیں وگرنہ معاملات جو پہلے ہی دگرگوں ہیں وہ ناقابل برداشت ہونے کے قریب ہیں۔