پولیس اور قوی خان

پولیس اور قوی خان

ڈی آئی جی عاطف اکرام کے اچانک انتقال پر دو تفصیلی کالم لکھنے کے بعد ارادہ تھا اب کچھ سیاسی موضوعات پر لکھوں گا مگر قْدرت شاید ان غلیظ موضوعات سے ابھی مجھے دْور رکھنا چاہتی ہے، گزشتہ شب ہمارے ممتاز درویش صفت اداکار قوی خان کا کینیڈا میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا، کچھ روز پہلے اْنہیں پتہ چلا وہ کینسر کے مْوذی مرض میں مْبتلا ہیں، اْن کی یادیں تازہ کرنے سے پہلے میں اپنے عزیز چھوٹے بھائی عاطف اکرام کے بارے میں قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں بس اتنی کمی ہمیشہ رہے گی اْن کے بچوں کو اپنا باپ نہیں مل سکے گا باقی کوئی کمی اْن کے اہل خانہ کو اس لئے محسوس نہیں ہوگی آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اْن کے لئے وہ کچھ کر دیا ہے جو ایک آسودہ زندگی گزارنے کے لئے کافی ہے، آئی جی پنجاب نے ذاتی طور پر اس کی جو تفصیلات مجھ سے شیئر کیں مجھے اْن کی ماتحت پروری اور خدا ترسی پر رشک آیا، وہ ایک انتہائی متحرک، نفیس اور شفیق پولیس افسر ہیں، اپنے اعلیٰ پولیس افسروں سے میری گزارش ہے ایسی ہی خدا ترسی وہ اپنے اْن رینکرز افسران و ملازمین کے لئے بھی دکھایا کریں جو عاطف اکرام ہی کی طرح اچانک موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اور اْس کے بعد اْن کے بچوں و دیگر اہل خانہ کا کوئی پْرسان حال نہیں ہوتا، مجھے اس موقع پر ایک انتہائی شاندار اور ایماندار پولیس افسر جاوید نْور مرحوم یاد آرہے ہیں، وہ ہمارے محترم بھائی فیصل شاہکار صاحب کے سْسر تھے، فیصل شاہکار جیسے اعلیٰ اوصاف کا مالک بھی شاید ہی ہماری پولیس میں اور کوئی ہوگا، جاوید نْور جب ڈی جی آئی بی تھے ایک روز میرے گھر تشریف لائے، اپنی اخلاقی قدروں پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے کی باتوں کو اتنے دھیان سے ہم سْن رہے تھے اس دوران موبائل فون پر آنے والی کالز وہ لے رہے تھے نہ میں لے رہا تھا، اچانک ایک کال آئی اْنہوں نے فوراًاٹینڈ کی، مجھے لگا شاید پرائم منسٹر یا اس ٹائپ کے کسی عہدے دار کی کوئی کال ہوگی جسے اٹینڈ کئے بغیر وہ نہیں رہ سکے، مگر جب وہ بات کر رہے تھے مجھے محسوس ہوا یہ کسی عام شخص کی کوئی کال ہے، وہ اْسے میرے گھر کا راستہ سمجھا رہے تھے اْس سے کہہ رہے تھے بیٹا آپ یہیں آجائیں۔۔ میں نے پوچھا کس کی کال تھی؟ فرمانے لگے”میں جب ایس ایس پی لاہور تھا میرے ساتھ ایک گن مین تھا جو دوران سروس انتقال فرما گیا تھا، یہ اْس کے بیٹے کی کال تھی، وہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں مجھ سے ملنا چاہتا ہے میں نے اْسے ادھر ہی بْلا لیا ہے“ کچھ دیر بعد وہ نوجوان آیا اور جاوید نور کا اْس کے ساتھ حْسن سلْوک دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اْن کا اپنا بیٹا طلحہ اْن سے ملنے آگیا ہے۔۔ میں اصل میں کہنا یہ چاہتا ہوں پولیس کے شہداء کے بچوں و دیگر اہل خانہ کے ساتھ تو ہمارے اکثر پولیس افسران کا رویہ بہت اچھا ہوتا ہے، اْن کے حق کے مطابق وہ اْن کی خدمت بھی کرتے ہیں، مگر اْن افسروں اور ملازمین کے ساتھ بھی ایسے ہی حْسن سلْوک کی ضرورت ہوتی ہے جو ڈاکٹر عاطف اکرام کی طرح اچانک وفات پا جاتے ہیں، اس حوالے سے پی ایس پی اور رینکرز میں کوئی تفریق بھی نہیں ہونی چاہئے، انسان سارے برابر ہوتے ہیں عہدے چاہے چھوٹے بڑے کیوں نہ ہوں، مہذب معاشروں میں اہمیت ”جان“ کی ہوتی ہے چاہے وہ کسی حیوان کی ہی کیوں نہ ہو، میں 1997 میں ناروے گیا وہاں میرے میزبانوں نے مجھے بتایا ناروے کے شہر اوسلو کی مئیر نے کل استعفیٰ دے دیا ہے، وہ سائیکل پر اپنے دفتر جا رہی تھی کسی سڑک سے گزرتے ہوئے بلی کا ایک بچہ اْس کی سائیکل تلے آ کر شدید زخمی ہوگیا، اْس نے اپنی سائیکل وہیں چھوڑی اور ایک ٹیکسی میں اْسے جانوروں کے ایک قریبی ہسپتال میں لے گئی، بلی کا بچہ مگر بچ نہ سکا، وہ خاتون مئیر اس پر اتنی افسردہ ہوئی اْس نے اپنے استعفیٰ میں لکھا ”میری وجہ سے ایک جان چلی گئی، میں بہت افسردہ ہوں، میں اس حالت میں اپنے فرائض صحیح طرح ادا نہ کر پاؤں گی“۔۔ اْس نے یہ نہیں لکھا کہ میری وجہ سے بلی کے بچے (جانور) کی جان چلی گئی اْس نے لکھا میری وجہ سے ایک”جان“چلی گئی۔۔ اب میں اپنے قوی خان کی طرف آتا ہوں، وہ ایک انتہائی حساس اور عظیم انسان تھے، پچھلے کئی برسوں سے وہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں مقیم اپنے بچوں مہران اور عدنان کے پاس آتے جاتے رہتے تھے، اْن کے بیٹے ایف سی کالج میں میرے سٹوڈنٹ تھے، اس حوالے سے اْن سے ایک ذاتی تعلق جْڑ گیا تھا، گزشتہ کچھ برسوں سے اْن کا زیادہ وقت کینیڈا اور آسٹریلیا میں گزرتا تھا، میں 2016 میں آسٹریلیا گیا اْنہیں میری آمد کا پتہ چلا اْنہوں نے سڈنی میں مقیم میرے میزبان اور میرے عزیز ترین چھوٹے بھائی حافظ شاہد اقبال سے رابطہ کیا اور کہا مجھے بٹ صاحب سے ملوائیں،ہم اْسی روز اْن کی خدمت میں حاضر ہوگئے، اْن کی خوشی دیدنی تھی، میں ذرا فاصلے پر بیٹھا اْنہوں نے اصرار کر کے مجھے صوفے پر اپنے ساتھ بیٹھا لیا، میں نے عرض کیا”قوی بابا پاکستان میں لوگ آپ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، پاکستان کا کون سا ایوارڈ کون سا اعزاز ایسا ہے جو آپ کو نہیں ملا، پھر آپ پاکستان سے باہر کیوں رہنے لگے ہیں؟“۔۔ اْن کی آنکھیں بھر آئیں کہنے لگے”وہاں اب جو ظلم ناانصافی بے ایمانی منافقت اور جھوٹ ہے بس وہ دیکھ دیکھ کر دل اْچاٹ ہو جاتا ہے اور میں وہاں سے نکل آتا ہوں“۔۔ اْن کے یہ دْکھ اب ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے ہیں، اب وہ وہاں چلے گئے جہاں کسی دْکھ کا سامنا اْنہیں نہیں کرنا پڑے گا۔۔ اس کالم کو ابتدا میں پولیس سے میں نے اس لئے جوڑا ایک مشہور ڈرامے اندھیرا اْجالا میں ایک پولیس افسر کا جو کردار اْنہوں نے ادا کیا تھا لوگوں کے دل و دماغ پر آج بھی نقش ہے، اْن کے اسی شاندار اور یادگار کردار پر میرے محترم بھائی رؤف کلاسرا نے اگلے روز اپنی فیس بْک وال پر بہت خوبصورت لکھا ”1980 کی دہائی میں ایک دْور دراز گاؤں کے گھر کے صاف سْتھرے صحن میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے سامنے ترتیب سے رکھی گئی رنگیلی چارپائیوں پر اْترتی ہوئی کتنی اْداس شامیں اْن کی مقروض تھیں، یونس جاوید کے اندھیرے اْجالے کا ایک خوبصورت کردار جو ہمیشہ ہائی مورل گراؤنڈ پر کھڑا رہتا تھا، جو بدی کے مقابلے میں نیکی کی قوتوں کے ساتھ جْڑا رہتا تھا، ڈرامہ ہی سہی لیکن ایک اْصول پرست اور ایماندار پولیس افسر جسے دیکھ کر کتنے ہی بچے اْن جیسا پولیس افسر بننے کی کوشش کرتے تھے“۔ (جاری ہے)