قوم کی فکری و عملی تقسیم ہو چکی!

قوم کی فکری و عملی تقسیم ہو چکی!

یہ بات بڑی حد تک واضح ہوتی چلی جا رہی ہے کہ قوم اوپر سے لے کر نیچے تک، سیاستدان، سرکاری افسران، بیوروکریسی، عدلیہ، انتظامیہ، صحافت، سماج اور اس سے جڑے تمام چھوٹے بڑے ادارے فکری اور عملی طور پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ طرفین اپنے اپنے انداز میں مصروف عمل ہیں ایک طرف پاکستان کی معیشت کو بچانے، سنبھالنے اور پٹڑی پر چڑھانے کی کاوشیں ہو رہی ہیں، دامے، درمے اور سخنے کام کیا جا رہا ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی سرتوڑ کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ سفارتی سطح پر ٹوٹے رابطے بحال کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی خاطر اقوام عالم سے مدد مانگی جا رہی ہے۔ دوسری طرف سیاست بچانے اور چمکانے کی کاوشیں ہو رہی ہیں، جلسے کئے جا رہے ہیں، مخالفین کو گالیاں دی جا رہی ہیں، حکومت کو ناکام بنانے کا جنون اس حد تک طاری ہے کہ مملکت کی ہر شے ان کے حملوں کی زد میں آ چکی ہیں۔ نفرت اور انکار کی سیاست پروان چڑھائی جا رہی ہے، 3 کروڑ 30 لاکھ افرادسیلاب سے متاثر ہیں اس گروہ کو ان سے رتی بھر ہمدردی نہیں ہے۔ وہ اپنے عزائم کی راہ میں آنے والی ہر شے کو تباہ و برباد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس گروہ کا سربراہ ارض پاک پر دندناتا پھر رہا ہے ہر طرح کی آئینی اور قانونی نافرمانیاں کر رہا ہے، اداروں کو جب چاہتا ہے للکارتا ہے، پکارتا ہے، حسب ضرورت انہیں برا بھلا بھی کہتا ہے سول نافرمانی پر اکساتا بھی ہے۔ اسلام آباد بند کرنے اور انارکی پھیلانے کی دھمکی بھی دیتا ہے لیکن اسے کچھ نہیں کہا جا رہا ہے حکمران اور ذمہ داران نجانے بھنگ پئے ہوئے ہیں وہ خود کہتا ہے کہ میں بہت خطرناک ہو گیا ہوں وہ سچ کہہ رہا ہے وہ اپنے عزائم کی تکمیل میں یکسو ہے۔ اسے کسی آئینی اور انتظامی رکاوٹ کی پروا نہیں ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی عدالت میں توہینِ عدالت کے ملزم سابق وزیراعظم پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا وہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ عمران خان ایک عرصے سے نفرت اور انکار کی سیاست پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دھتکارنے اور دھمکانے کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں انہوں نے اپنے عمل سے عدلیہ کی جس طرح توہین کی وہ کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن عدلیہ کے چیف، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جس طرز فکروعمل کا مظاہرہ کیا وہ یقینا حیران کن اور تکلیف دہ ہے۔ توہین عدالت کے مقدمات میں ملزم اپنے وکیل کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یہاں عمران خان اسد عمر، وغیرھم کے ساتھ نہ صرف کرسیوں پر بیٹھے رہے بلکہ گپ شپ لگاتے ہوئے پائے گئے۔ عدالت نے انہیں کٹہرے میں کھڑا ہونے کے لئے نہیں کہا بلکہ اطہر من اللہ نے ”مجھے دلی افسوس ہوا“، ”آپ کی عوامی پذیرائی/ فالوونگ  بھی بہت ہے“ وغیرہ وغیرہ جیسے فقرے ادا کئے جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ چیف صاحب ملزم کے لئے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ اس کی ”مشہوری و مقبولیت“ سے متاثر بھی ہیں۔ ”دلی دکھ“ کا ذکر چیف صاحب کی پسندیدگی کا اظہار ہے۔ کیا ایسا رویہ کسی جج کے لئے بالعموم اور ایک چیف جسٹس کے لئے بالخصوص قابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔ ”ملزم“ کے ساتھ ”محب“ جیسا سلوک کیا ”عدلیہ کی توہین“ کے زمرے میں نہیں آتا ہے؟ کیا سول سوسائٹی کو اس کے لئے آواز نہیں اٹھانی چاہئے؟۔ ویسے چیف جسٹس اطہر من اللہ چھٹیوں سے واپسی کے بعد سے اب تک تحریک انصاف کے لئے آسانیاں پیدا کرتے چلے آ رہے ہیں ان کی تحریک انصاف کے لئے محبت اور پسندیدگی الفاظ اور افکار سے آگے بڑھتے ہوئے ان کے فیصلوں سے عملاً ثابت ہو رہی ہے۔ 
اطہر من اللہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیمرا اور حکومت کا مؤقف سنے بغیر ہی عمران خان کی لائیو تقریر پر پابندی کو وقتی طور پر کالعدم قرار دے دیا ہے تاکہ وہ ٹیلی تھون اور دیگر سرگرمیوں میں شمولیت کے ذریعے سیلاب زدگان کی امداد کر سکیں۔ عمران خان نے سیلاب زدگان کی امداد تو کیا کرنی ہے وہ جلسے ضرور کر رہے ہیں اور ان کی لائیو کوریج بھی خوب ہو رہی ہے۔ اپنے جلسوں میں وہ بلاروک ٹوک اپنے مخالفین پر حسب سابق دشنام اور نفرت انگیزی کاپرچار کر رہے ہیں۔ ان کی ایسی کاوشوں کو ٹی وی سکرین پر دکھائے جانے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
توہین عدالت کیس میں ان کے تحریری جواب کو عدالت نے قبول نہیں کیا بلکہ انہیں سات دن مزید دیئے ہیں کہ وہ دوبارہ تحریری جواب داخل کرائیں اور وہ ایسا جواب ہونا چاہئے جو عدالت کو قبول ہو اس حوالے سے انہیں رہنمائی اور ہدایات بھی دی جا چکی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عمران خان کے وکیل نے عدالت سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی تھی عدالت نے خود ہی ازراہ ہمدردی 7 دن کی مہلت دی ہے۔
اطہر من اللہ نے اے آر وائی نیوز پر عائد حکومتی پابندی بھی ختم کر ڈالی ہے۔ اظہار خیال پر پابندی بلاشبہ آئین میں درج انسانی حقوق کے منافی ہے لیکن ”اظہار خیال“ شتربے مہار تو نہیں ہو سکتا ہے آئینی طور پر اس بارے میں بھی کچھ ”فرائض“ درج ہیں۔ اے آر وائی پر پیمرا پابندی بارے مؤقف اپنایا گیا کہ قصور اے آر وائی کا ہے جس نے تقریر چلائی جبکہ عمران خان بے قصور ہے۔ پابندی اٹھاتے ہوئے کہا گیا اگر نیازی غلط تقریر کرے تو اس میں اے آر وائی کا کیا قصور ہے۔
اطہر من اللہ نے عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا نام سٹاپ لسٹ سے نکالنے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے اس کے علاوہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے کیس کو ختم کرنے کے لئے درخواست سماعت کے لئے منظور کر لی ہے۔ بیان کردہ پانچ فیصلے 3 دنوں میں سامنے آئے ہیں۔ اگر 10 اپریل 2022 عمران خان حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے عدالت کا عمران خان اور تحریک انصاف کو ریلیف بہم پہنچانے کے احوال واقعی کا مطالعہ کریں تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہر ممکنہ حد تک تحریک انصاف کو ہر کیس میں ریلیف دیا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
جہاں تک توہین عدالت کا تعلق ہے کیس یا جرم بڑا سادہ ہے۔ یہ بات عدالت نے ہی طے کرنا ہوتی ہے کہ اس کی توہین ہوئی ہے یا نہیں۔ نوٹس جاری ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عدالت نے بادیئ النظر میں اپنی توہین محسوس کی ہے۔اس لئے نوٹس جاری کیا گیا ہے کیس کا فیصلہ فوری ہوتا ہے ملزم اگر بلاشرط معافی مانگ لے تو عدالت اسے قبول کر کے معافی بھی دے دیتی ہے۔ لیکن نہال ہاشمی، طلال احمد اور دنیا عزیز کے کیسز میں عدالت نے معافی نہیں تسلیم کی اور انہیں سزا ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں وہ 5,5 سال کے لئے نااہل قرار پائے۔ یہ سب حضرات مسلم لیگ ن سے متعلق تھے۔ اب معاملہ ایک لاڈلے کا ہے جو گزرے 25 برس سے اداروں کا لاڈلہ رہا ہے۔ 10 اپریل کی رات جب اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو عمران خان نے جس انداز میں ری ایکٹ کیا اس سے تاثر پیدا ہوا کہ شایداب لاڈ ختم ہوا چاہتے ہیں۔ کہا گیا کہ یہ اب انہیں 2/3 اکثریت دلا کر اقتدار میں لانے کی کاوش ہے۔ ملی جلی باتیں سننے میں آئیں لیکن اپریل کے بعد پیش آئند حالات اور واقعات اسی سمت میں اشارہ کر رہے ہیں ن لیگی اتحادی عمران خان پر مختلف مقدمے قائم کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ بس اب عمران خان نااہل ہوا چاہتا ہے فارن فنڈنگ کیس ہو یا توشہ خانہ کیس یہ ایسے کیسز ہیں جن سے عمران خان کا بچ نکلنا کسی طور بھی ممکن نظر نہیں آتا ہے لیکن حقیقت ابھی تک اس کے برعکس ہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگی رہنما شاہد خان عباسی نے ایسی صورت حال سے متعلق بہت خوبصورت بیان دیا ہے کہ ”مسلم لیگ نے عمران خان پر مقدمات کے حوالے سے امیدیں لگا رکھی ہیں جبکہ تاریخی اعتبار سے ریکارڈ بتاتا ہے کہ عمران خان کو کچھ نہیں ہونے والا ہے“ میں بذات خود بھی اسی نقطہ نظر کا حامی ہوں کہ ابھی تک عمران خان جس طرح دندناتے پھر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انہیں کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے ان پر سایہ فگن دست شفقت کسی بھی آئینی اور قانونی پابندیوں سے زیادہ بھاری اور متبرک ہے باقی رہا پاکستان تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔

مصنف کے بارے میں