بجلی کے مسائل اور اُن کا حل 

بجلی کے مسائل اور اُن کا حل 

 میڈیا خبر کے مطابق کینال روڈ تاج باغ کے مکینوں نے کینال روڈ بلاک کردی کیونکہ ایک دن سے بجلی اُس علاقہ میں نہیں آرہی تھی اور اہلِ علاقہ نے کینال روڈ بلاک کردی جس کی وجہ سے عوام الناس کو بڑی مشکلات پیش آئیں۔ جنابِ عالیٰ یہ مسئلہ پاکستان کے لیے کوئی نیا نہیں ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے بجلی کے مسائل لگاتار گھمبیرہوتے گئے اور آج یہ اذیت ناک بلکہ کربناک صورتِ حال سے عوام الناس دوچار ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں یہ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔اب ان مسائل کے حل کی طرف آتے ہیں: 
۱:ونڈ ٹربائن :
  پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں دوسری نعمتوں سے نوازا ہے وہاں سمندر سے بھی نوازا ہے پاکستان کی ساحلی پٹی جو کہ تقریباً 1050 کلو میٹر ہے جس پر ہمیشہ 15-12 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے ہوا چلتی ہے اس قدرتی ہوا کو استعمال میں لاکر ونڈ ٹربائن جو کہ پوری دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں کو لگایا جائے جو دو سے چار میگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہیں ۔ اُن کی انسٹالیشن ایک دفعہ ہوتی ہے اور اُس سے ہمیشہ بجلی حاصل ہوتی رہے گی۔ 
۲ : سولر پینل :
  سولرپینل کو کون نہیں جانتا لیکن ہر شخص اِسے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لہذا اس کو بنک کے ذریعے تمام لوگوں کو انسٹالمنٹ کے ذریعے دیا جائے اُسی طرز پر جس طرح اسرائیل نے تمام لوگوں کو سولر پینل بذریعہ بنک دے کر اپنے ملک سے بجلی کا مسئلہ حل کیا۔ 
۳:ڈیم سسٹم :
  پاکستان میں بڑے ڈیم صرف ایوب حکومت کے دور میں بنے۔ اُس کے بعد ہماری آنے والی حکومتوں نے ڈیم بنانے پر کوئی توجہ نہ دی۔ جس کی وجہ سے ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہو گیا۔ غالباً اس دور کی سب سے کم لاگت کی بجلی صرف تھرمل طریقے سے ہی بن سکتی ہے۔ لیکن جب چائنہ میں ڈیم بن رہے ہیں اور انڈیا پاکستان کے پانیوں کو روک کر ڈیم بنا رہا ہے او رہم سکون کی نیند میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں ڈیم بنانے پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ کیونکہ یہی سب سے سستا بجلی کا ذریعہ ہے۔ 
۴:کوئلہ پلانٹ:
  پاکستان میں کوئلہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ اندرون سندھ ، پنجاب ، بلوچستان ، چنیوٹ میں اس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جس کو استعمال کر کے ہم کافی مقدار میں بجلی بنا سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹ سے بہت بڑی مقدار میں بجلی بنائی جارہی ہے لیکن افسوس کہ پاکستانی حکومتوں نے اس پر کبھی توجہ نہ دی اور کوئلہ کو بجلی بنانے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکا اور اگر کوئی کوئلہ پلانٹ بنایا تو وہ بھی صرف ایک آدھ کی حد تک۔ 
۵: جوہری توانائی :
  الحمداللہ پاکستان جوہری توانائی کے ذرائع موجود ہیں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقوں میں یورینیم کے ذخائر کافی عرصہ پہلے دریافت ہوتے تھے۔ اور یہی میڑیل کم و بیش جوہری ایٹمی گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی بقا کے لیے جوہری ایٹمی گھروں کو بنانا ہو گا۔ اور موجودہ جوہری گھروں کی استعداد پہلے سے زیادہ کرنی ہوگی اور یہ جوہری پلانٹ صرف بجلی کے حصول کے لئے ہوں گے۔ 
۶: بائیو گیس پلانٹ :
 بائیو گیس پلانٹ سے بجلی گھر بنانا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں بائیو گیس جس میں کم و بیش تمام قسم کے جانوروں کے فضلہ جات ، تمام سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے اور درختوں کے پتے وغیرہ تک استعمال ہوتے ہیں اور اس سے بائیو گیس بنا کر اور اُس جلنے والی گیس سے بجلی گھر چلائے جاسکتے ہیں ۔ اس طرح اس بائیوگیس پلانٹ کے استعمال شدہ اخراج سے دوبارہ قدرتی کھاد بنتی ہے یعنی یہ پلانٹ کا فضلہ بھی فصلوں میں استعمال ہوتاہے۔ پلانٹ کو چلانے کے لیے ہمارے پاس گائے بھینسوں کا گوبر وافر مقدار میں موجود ہے اور یہ پلانٹ دیہاتوں میں لگائے جاسکتے ہیں ۔

۷: سولر ہیٹ پلانٹ :
  دنیا کے بہت سارے ممالک میں حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ریفلیکٹر شیشوں کی مدد سے تمام روشنی اور ہیٹ کو ایک نقطے پر 
مرکوز کر کے اُس بے انتہا اضافہ شدہ ہیٹ سے پانی گرم کیا جاتاہے اور اُس ہیٹ سے سٹیم ٹربائن جنریٹر چلا کر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ 
۸: آبشار سسٹم : 
 پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایک وسیع پہاڑی سسٹم عطا کیا ہے اور اس پہاڑی سلسلے میں جگہ جگہ آبشاریں بنی ہیں اور ان آبشاروں کے گرتے ہوئے پانی کے نیچے ٹربائن جنریٹر لگا کر اس پانی سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہی کام ہم تمام دنیا کے بڑے آبشاروں سے میڈیا کے ذریعے دیکھتے ہیں ۔ کینیڈا کی نیاگرا فال/ آبشار سے یہ کام کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح تمام ہیڈ / بیراج وغیرہ کے دروں میں بھی ٹربائن لگا کر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جب کہ لاہور کی کینال سے بھی معمولی سی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جو کہ LED سٹریٹ لائٹ جو کینال روڈ پر ہے اُس کے لیے کافی ہو گی اور حکومت کی سرپرستی کے ساتھ یہ کام میں بھی کر سکتا ہوں۔ 

       جاوید انجم
        ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر 

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مصنف کے بارے میں