چوری اور سینہ زوری۔۔۔!

چوری اور سینہ زوری۔۔۔!

کئی طرح کے محاورات، ضرب الالمثال، اقوال اور ارشادات و فرمودات پڑھنے، لکھنے، بولنے اور سننے میں آتے رہتے ہیں چوری اور سینہ زوری یا چور مچائے شور، ایسے ہی قول یا فرمودات ہیں جو ایک خاص تناظر میں آجکل استعمال ہی نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ان کے بارے میں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ ان کا عملی ثبوت یا نمونہ بھی ہر روز ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ میرا اشارہ تحریک انصاف کی فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں الیکشن کمیشن کے دیئے جانے والے فیصلے کی طرف ہے کہ جہاںالیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے بارے میں ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کا فیصلہ دیا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان اور ان کے حالی و موالی اور تحریک انصاف کے دوسرے عہدیدار الیکشن کمیشن کے فیصلے کو رد ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ تند و تیز لہجے میں چیف الیکشن کمشنر سمیت الیکشن کمیشن کے دوسرے ممبران کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یقینا یہ منظر نامہ جیسے اوپر کہا گیا ہے چوری اور سینہ زوری یا چور مچائے شور کی جہاں غمازی کرتا ہے وہاں اس بات کی دلالت بھی کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں 
بغیر کسی واضح ثبوت کے ہر طرح کی ہر زہ سرائی ہی نہیں کرتے رہتے ہیں بلکہ گالم گلوچ تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اپنے حوالے سے جب کوئی خامی، کمی، قصور یا قانون کی خلاف ورزی مع ثبوت سامنے آ جائے تو ہم اسے تسلیم کرنے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فارن فنڈنگ ثابت ہونے کا فیصلہ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق جناب عمران خان نے جھوٹا بیان حلفی دیا، 8اکاؤنٹس ظاہر اور 13 چھپائے۔ 34 غیر ملکی شہریوں اور عارف نقوی کی ووٹن کرکٹ سمیت 351 کاروباری اداروں سے ممنوعہ فنڈز لیے۔ امریکہ، بھارت، آسٹریلیا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانک کانگ، سوئزر لینڈ اور فن لینڈ سمیت کئی ممالک سے عطیات وصول کیے۔ فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے 2008 سے 2013 تک 5 سال کے دوران جمع کرایا گیا فارم ون سٹیٹ بینک آف پاکستان کی Statement سے مطابقت نہیں رکھتا 
اور اس کے مطابق غیر مستند ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اکاؤنٹس چھپائے جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔ پی ٹی آئی نے دانستہ طور پر ووٹن کرکٹ لمیٹڈ، متحدہ عرب امارات کی کمپنی برسٹل انجینئرنگ سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ ان کے علاوہ سوئزرلینڈ کی کمپنی ای پلینٹ ٹرسٹیز، برطانیہ کی ایس ایس مارکیٹنگ کمپنی سے بھی ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ اسی طرح یو ایس اے ایل ایل سے بھی سے پی ٹی آئی کی حاصل کردہ فنڈنگ بھی ممنوعہ ثابت ہو گئی۔ اس کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھارتی شہری رویتا شیٹی سے ملنے والی 1375 ڈالر کی فنڈنگ بھی غیر قانونی ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس سے لا تعلقی ظاہر کی وہ اس کی سینئر قیادت نے کھلوائے تھے۔ فیصلے کے مطابق دستیاب ریکارڈ اور شواہد کی بنا پر تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوتی ہے۔ اس بنا پر پی ٹی آئی کے خلاف قانون کے تحت کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے کہ کیوں نہ ممنوعہ فنڈنگ کو ضبط کر لیا جائے۔
ایک قومی معاصر کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ بڑی ہوش ربا ہے۔ اس تفصیل کے مطابق پی ٹی آئی نے مین آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ووٹن کرکٹ کلب، جو ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کی ملکیت ہے، سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 امریکی ڈالر حاصل کیے۔ متحدہ عرب امارات کی برسٹل انجینئرنگ سے 49 ہزار 965 امریکی ڈالر، سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والی کمپنی ای پلینٹ اور برطانوی کمپنی ایس ایس مارکیٹنگ سے کل 10 لاکھ 1 ہزار 341 ڈالر حاصل کیے۔ تحریک انصاف امریکہ کے تحت امریکہ کی 2 ایل ایل سی کمپنیوں سے 25 لاکھ 25 ہزار 500 ڈالر پی ٹی آئی پاکستان کو منتقل کیے گئے۔ پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن نے 27 لاکھ 79 ہزار 822 ڈالر پی ٹی آئی پاکستان کے نام منتقل کیے۔ پی ٹی آئی یو کے جو پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے اس سے 3 لاکھ 92 ہزار 265 برطانوی پاؤنڈ منتقل ہوئے۔ پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن سے 35 لاکھ 81 ہزار 186 پاکستان روپے کے عطیات بھی وصول کیے گئے۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے آسٹریلوی کمپنی دینیک پرائیوٹ لمیٹڈ، انور برادرز، زین کاٹن اور ینگ سپورٹس سے بھی فنڈنگ حاصل کی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے تحریک انصاف اور جناب عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد معروضی صورت حال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کی وفاقی حکومت اس حوالے سے کسی طرح کا دباؤ قبول کر کے پیچھے ہٹنے کے بجائے جناب عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ضروری اقدامات کرنے کی راہ اختیار کر چکی ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف غیر ملکی امداد لینے والی جماعت قرار پائی ہے۔ اس کے خلاف فارن فنڈنگ کی تحقیقات ایف آئی اے کریگی جبکہ پارٹی قیادت کے خلاف پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 کے تحت کارروائی ہو گی۔ تمام قانونی اور آئینی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے تحریک انصاف کے خلاف ڈیکلریشن سپریم کورٹ میں بھیجنے کے لیے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ دریں اثنا پی ڈی ایم کی طرف سے جناب عمران خان کے خلاف توشہ خانے سے ملنے والے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی بنا پر انہیں نا اہل قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔ جس کی سماعت 18 اگست کو ہو گی۔ اس کے ساتھ حکومتی اتحاد نے تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ لینے کے حوالے سے ایک دوسرا ریفرنس بھی الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیا ہے جس کی سماعت کے لیے 23 اگست کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے بھی ممنوعہ فارن فنڈنگ میں جناب عمران خان کے بعض ساتھیوں جن کے نام پر اکاؤنٹس کھولے گئے تھے تیزی سے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سابق صوبائی وزیر محمود الرشید سمیت 11 افراد کو جمعرات کے دن ایف آئی اے میں طلب کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے میں ایمرجنسی نافذ کر کے تحریک انصاف کے خلاف تحقیقات کا دائرہ پورے ملک میں بڑھا دیا گیا ہے۔ جناب عمران خان کے لیے یہ انکوائریاں اور الیکشن کمیشن میں ان کی اور ان کے ساتھیوں کی طلبی بلاشبہ پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں جو ثبوت اور شواہد سامنے لیکر آیا ہے وہ اس تناظر میں جناب عمران خان کی تاحیات نااہلی کے لیے کافی ثابت ہو سکتے ہیں کہ اس سے قبل جولائی 2016 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا 5رکنی بینچ ان سے کم تر شواہد اور ثبوت سامنے ہونے کے باوجود سابق وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے چکا ہے۔

مصنف کے بارے میں