ایک جھوٹ کی سچی کہانی

ایک جھوٹ کی سچی کہانی

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک دعویٰ تسلسل کے ساتھ دہراتے ہیں کہ وہ بائیس برس کی جدوجہد کے بعد وزیر اعظم بنے۔ ساتھ ہی پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے بانیان پر یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔ بقول عمران خان ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے جبکہ نواز شریف جنرل ضیا الحق کو روحانی والد کہتے تھے۔ اس کے برعکس عمران خان خود کو ایک جمہوری اور عوامی لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کاش یہ سب باتیں سچ مان لی جاتیں۔ لیکن یہ خود خان صاحب ہی ہیں جو اپنی ہر بات کو غلط ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ہر روز ایک نئی کہانی مارکیٹ کی جاتی ہے اور اگلے چند دنوں میں اس کہانی کا رد پیش کیا جاتا ہے۔ عمران خان کے سیاسی کیریئر پر نظر ڈالیں تو 2011 تک ان کی سیاسی حیثیت پاکستان کی ٹاپ 10 جماعتوں میں نہیں ہوتی تھی۔ چونکہ عمران خان کا سٹارڈم اس جماعت کے ساتھ جڑا تھا تو اس تانگہ پارٹی بلکہ سنگل سیٹ جماعت کو بھی میڈیا میں پذیرائی ملتی رہی۔ یہ دراصل اس نظام کی کمزوری ہے جو حقیقی سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو درست مقام دینے کے بجائے مشہور افراد کو اپنے سر پر بٹھا لیتا ہے۔ پھر یہی نااہل اور نالائق لوگ اس نظام کی دھجیاں اڑا کر اسے ایک مذاق بنا دیتے ہیں تو سمجھ نہیں آتی کہ اب کیا کیا جائے؟ یہی حال موجودہ نظام کا عمران خان کے تجربے سے ہوا ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کے 2011 میں ایک کامیاب جلسے نے فیصلہ سازوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ یہ شائد پورے نظام اور اداروں کا فیصلہ نہیں تھا۔ یہ صرف چند طاقتور لوگوں کا فیصلہ تھا کہ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو تیسری قوت بنا کر پیش کیا جائے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے میثاق جمہوریت کے بعد یہ بات طے تھی کہ جو مرضی ہو جائے غیر جمہوری طاقتوں کو دوبارہ اقتدار میں حصے دار نہیں بنانا۔ یہ بات ان چند افراد کے لئے ناقابل قبول تھی جو کسی نہ کسی طرح اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کے حصول کے لئے اقتدار کی ڈوریں اپنے ہاتھ میں رکھنے کے خواہشمند تھے۔ اس کیلئے براہ راست کنٹرول کی بدنامی سے بچنے کیلئے ایک ہی راستہ تھا کہ کسی تیسری سیاسی طاقت کو ابھارا جائے۔ اس کے لئے کسی مشہور و معروف عوامی چہرے کی ضرورت تھی۔ ایسے میں عمران خان سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہو سکتا تھا۔ جو کرکٹ ورلڈ کپ اور اپنے سوشل ورک کی وجہ پہلے ہی مشہور معروف تھا۔ دولت اور شہرت کے بعد عمومی طور پرانسان کی خواہش ہوتی کے وہ طاقتور بن جائے۔ اس خواہش کا راستہ اقتدار کی جانب ہی کھلتاہے۔ اسی خواہش کے جذبے
میں ڈوبے عمران خان نے 1996 میں تحریک انصاف بنائی۔ 2001 تک 15 برس میں عمران خان کی جماعت ایک سنگل سیٹ جماعت تھی۔ عمران خان نے پورے پاکستان سے مخلص اور پڑھے لکھے لوگ تو جمع کر لئے لیکن یہ الیکٹ ایبل میٹریل نہیں تھے۔ یہ لوگ گلی، محلے، شہر اور حلقے کی سیاست سے نابلد لوگ تھے۔ یہ گپ شپ، ڈرائنگ روم ڈسکشن اور چائے کی پیالی میں تو انقلاب برپا کر سکتے تھے لیکن الیکشن لڑ کر عمران خان کو اقتدار میں نہیں لا سکتے تھے۔ عمران خان جو مسلسل کوشاں تھے کہ وہ کسی طرح فیصلہ ساز طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل کر سکیں اور ان کے لیے راستے ہموار کیے جا سکیں۔ 2011 کا جلسہ وہ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ جب دو طرفہ ضرورت نے فریقین کو قریب کر دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ جس میں اکثریت ان ریٹائرڈ افراد کی تھی جو جنرل پرویز مشرف کے دور سے تعلق رکھتے تھے یا اسی کا تسلسل تھے۔ ان کے نزدیک مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے میثاق جمہوریت کے نتیجے میں معاشی فوائد کی تقسیم کا طریقہ کار تبدیل ہو جانا تھا۔ کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں۔ 90 کی دہائی میں ان جماعتوں کی آپسی لڑائی نے صرف اور صرف جمہوریت کو کمزور کیا تھا۔ سازشوں اور جمہوری طاقتوں کی تذلیل کا راستہ روکنے کے لئے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں جو تاریخی میثاق جمہوریت کیا وہ کسی طرح بھی غیر جمہوری سوچ کے حامل افراد کو قابل قبول نہیں تھا۔ اقتدار پر کنٹرول اور مفادات خطرے میں آ چکے تھے۔ اس لئے ان جمہوری جماعتوں کی لیڈر شپ کے خلاف مذموم پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔ اگر بات صرف پراپیگنڈے سے حل ہو جاتی تو شاید عمران خان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت جمہوریت کی خاطر ایک پیج پر آ چکی تھیں۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد بھی اسی معاہدے پر قائم رہیں جو کہ اصل باعث تشویش تھا۔ اس لئے عمران خان کے ساتھ بہت سے الیکٹ ایبل شامل کئے گئے۔ 2013 کے الیکشن میں تمام تر مہم، خوشنما نعروں، فارن فنڈنگ اور گراؤنڈ سپورٹ کے باوجود بھی تحریک انصاف قومی اسمبلی میں صرف 33 سیٹیں لے سکی۔ البتہ یار لوگ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنوا نے میں کامیاب رہے۔ عمران خان بنیادی طور پر ایک ضدی، انا پرست اور خود ستائشی کے حامل شخص ہیں۔ یہی چیز ایسی تھی جسے استعمال کرنا آسان تھا۔ عمران خان جو 2013 میں وزیر اعظم کا خواب سجائے الیکشن کے میدان میں اترے تھے۔ ان کے لئے یہ ناقابل قبول تھا کہ وہ اس معمولی حیثیت میں اس پارلیمان کا حصہ بنتے جہاں وہ اپوزیشن لیڈر بھی نہیں بن سکتے۔ لہٰذا دھاندلی کا روایتی شور ڈالا گیا۔ نواز شریف کی آئینی اور جمہوری حکومت پر 4 حلقے کھولنے کا دباؤ ڈالا گیا۔ اس دوران عمران خان سے اچانک ریٹائرڈ فوجی افسران کی ایک بڑی تعداد مخلص و ہمدرد بن گئی۔ ائر وائس مارشل ر شاہد لطیف اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کر چکے ہیں کہ عمران خان کے 2014 کے دھرنے کی پلاننگ اور سپانسر شپ میں وہ شامل تھے۔ کیونکہ انھیں نواز شریف پسند نہیں تھے۔ صرف پسند نا پسند کی بنیاد پر جمہوری حکمرانوں کو کس طرح نشان عبرت بنایا جاتا رہا ہے یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ عمران خان تو 2014 میں بھی لانگ مارچ اور دھرنا دینے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ مولانا طاہر القادری کو شامل کیا گیا۔ جو اس سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ پرفارمنس دے چکے تھے۔ ان سیاسی کزنز کے ذریعے اسلام آباد کی سڑکوں پر جو تماشا کرایا گیا۔ پوری دنیا میں پاکستان کی جو بدنامی ہوئی۔ ملک جو معاشی نقصان ہوا۔ چین کے صدر جو اربوں ڈالر کے معاہدے کرنے پاکستان آ رہے تھے نہ آ سکے۔ سب جانتے ہیں۔ لیکن یہ انا پرست شخص اس وقت تک تنہا اپنے چند شام کے ساتھیوں کے ہمراہ پارلیمان روزانہ شام کو ملک کا تماشا بناتا رہا جب تک سانحہ آرمی پبلک سکول نہ ہو گیا۔ پھر عدالت کے ذریعے ایک جمہوری وزیر اعظم کو نااہل کیا گیا۔ اس کا سہرا بھی صرف عمران خان کے سر جاتا ہے۔ اس کیس میں عمران خان کی جو مدد کی گئی وہ عمران خان جانتا ہے یا پھر خدا۔ عمران خان کو طاقتور حلقوں کی آشیرباد حاصل تھی۔ اسے وزیراعظم بنانے کے لئے کیسے گراؤنڈ کلیئر کیا جا رہا تھا۔ جمہوری لیول پلیئنگ فیلڈ ختم کر دی گئی۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کو پراپیگنڈے کے ذریعے سندھ تک محدود کرنے اور پنجاب سے ان کے تمام الیکٹ ایبل تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالنے والے کون تھے؟ ان تمام حالات کے باوجود ملکی معیشت آگے بڑھ رہی تھی۔ مسلم ن کی پالیسیوں کا تسلسل موجود تھا۔ ڈالر 160 اور پٹرول 100 روپے کے آس پاس تھے۔ پاکستان کو 2028 میں دنیا 20 بڑی معیشتوں میں دیکھا جا رہا تھا۔ دراصل جمہوریت ترقی کر رہی تھی۔ دوسری جانب اقتدار اور طاقت کی ہوس اس سے برسر پیکار تھی۔ ہر صورت وزیر اعظم بننے کی خواہش میں عمران خان نے ہر اس شخص سے ہاتھ ملایا۔ جسے وہ اپنی تقریروں اور گفتگو میں مطعون کر چکے تھے۔ جس نظریے پر چند سر پھرے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ وہ تو عمران خان کا دھوکہ تھا۔ اب انھیں چھوڑکو انھی لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھایا جن کے ساتھ بیٹھنا تو درکنار عمران خان ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ قوم کے ساتھ دھوکے اور فریب کا اصل چہرہ تھا۔ جسے جاننے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عمران خان بر سر اقتدار کیسے آئے اور پھر اقتدار سے نکل کر کیا کہہ رہے ہیں؟ اور کیوں کہہ رہے ہیں؟ ایک جھوٹ کی سچی کہانی جاری ہے۔