ایٹمی اثاثے نشانے پر آ چکے ہیں؟

ایٹمی اثاثے نشانے پر آ چکے ہیں؟

سینئر سیاستدان رضا ربانی نے سینٹ میں اپنے خطاب میں مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم ایوان میں آ کر پالیسی بیان دے اور قوم کو ملک کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بتائیں کہ ان پر اس حوالے سے کوئی دباؤ تو نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ ہونا ایسے شکوک و شبہات کو ہوا دے رہا ہے۔ بات بڑی اہم ہے اور کہنے والا بھی انتہائی معتبر شخص ہے۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام عالمی صہیونی قوتوں کی آنکھوں میں روزِ اوّل سے ہی کھٹکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے قیام پاکستان روزِ اول سے ہی ہندو کی نظر میں ناپسندیدہ رہا ہے۔ ہندوستانی قیادت چاہے وہ بی جے پی کی شکل میں ہو یا کانگریس کی شکل میں۔ بی جے پی اپنے ہندوّانہ تعصب کے نتیجے میں کشمیر کھا گئی ہے جبکہ ہمارا مشرقی پاکستان کانگریسی سیکولر قیادت کی نذر ہو گیا۔ ہندو چاہے سیکولر ہو یا متعصب، وہ مسلمان کے لئے ہندو ہی ہے اور پاکستان کسی بھی ہندو کو ہضم نہیں ہو گا۔ بالکل اسی طرح پاکستان کا ایٹمی پروگرام روزِ اول سے ہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ہے عیسائی دنیا اور اس کے قائد امریکی برطانوی عیسائی اور صہیونی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پاکستانی ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ اسلامی ایٹمی پروگرام سمجھتے ہیں اور اسے نقصان پہنچانے اور بالآخر ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ بات انہوں نے کبھی چھپائی نہیں ہے اور یہ بات ہمیں بھی پتا ہے کہ دشمن ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گا جب اسے ایسا کرنے کا موقع ملے گا۔
مشرقی پاکستان پر جب بھارت سرکار نے حتمی وار کیا تھا تو اس وقت ہمارے سیاسی اور معاشی حالات کیا ایسے نہیں تھے جیسے آج کل ہیں۔ اس وقت ہماری سیاسی قیادت گتھم گتھا تھی۔ ہماری عسکری قیادت بھی عوام میں ناپسندیدہ جانی جاتی تھی۔ ہماری معیشت بھی کچھ بہت اچھی نہیں تھی۔ ہم 1965 کی جنگ کے زخم چاٹ رہے تھے معاہدہ تاشقند، ایوب خان کی سیاست کی جڑوں میں بیٹھ چکا تھا۔ ایوب خان کے خلاف اپوزیشن تحریک چلا رہی تھی۔ اگرتلہ سازش کیس ہماری سیاست پر چھایا ہوا تھا۔ ایسے ماحول میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کرائے اور پھر ہم نے دیکھا کہ انتخابی نتائج تسلیم نہ کئے گئے۔ ملٹری ایکشن شروع ہوا۔ دشمن بیچ میں کود پڑا اور پھر پاکستان دولخت ہو گیا۔
آج ہماری سیاست ابہام و دشنام میں گھری ہوئی ہے۔ 2011 سے جو پولیٹیکل انجینئرنگ کی جا رہی تھی وہ اب اپنے برگ و بار دکھا رہی ہے۔ عمران خان کو ایوانِ اقتدار میں لانے کے لئے جو آپریشن شروع کیا گیا اس نے ہماری سیاست میں جو زہر بھرا اس کے اثرات ہماری قومی سیاست پر بند آنکھوں سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ 10 اپریل 2022 میں جب عمران خان ایک تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے باعث اقتدار سے الگ کر دیئے گئے تو پھر انہوں نے ایک کھلا احتجاجی موڈ اپنا لیا۔ اتحادی حکومت کو ناکام بنانے کے لئے لانگ مارچ بھی کیا۔ شارٹ مارچ بھی ہوا حتیٰ کہ انہوں نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں بھی توڑ دیں آج پاکستان سیاسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ یک و تنہا۔
دوسری طرف قومی معیشت عالم نزع میں ہے۔ پاکستانی معیشت 126 ارب ڈالر کے غیرملکی/ بیرونی قرضوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ 21 فیصد قرضہ ورلڈ بینک، 16 فیصد ایشین ڈویلپمنٹ بینک، 13 فیصد پیرس کلب، 17 فیصد نان پیرس کلب، 22 فیصد کمرشل بینکوں کا قرض ہے جبکہ ہم نے صرف 8 فیصد قرض آئی ایم ایف کو دینا ہے۔ یعنی ہمارے مجموعی قرضے کا صرف 8 فیصد آئی ایم ایف کا قرض ہے جبکہ آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچوا رہا ہے۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی قرضے صرف نفع اندوزی کے لئے نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ سیاسی و سفارتی شرائط بھی جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ امریکہ اور ہمارے کچھ عرب بھائی سی پیک کے خلاف ہیں وہ نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ آپریشنل ہو، وہ نہیں چاہتے کہ چین یہاں خطے میں قدم جما سکے۔امریکہ بھارت کو بڑھاوا دے رہا ہے بھارت اس کا سٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے اور مسلم دشمنی کا ساتھی بھی۔ پاکستان نے جب سے ایٹمی پروگرام شروع کیا ہے وہ دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا ہے۔ اشتراکیت کے خلاف جہاد افغانستان میں ہمارا کردار مغرب کے لئے باعث اطمینان تھا لیکن طالبان کے خلاف دہشت گردی کی 20 سالہ جنگ میں مغرب کی ناکامی انہیں ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ امریکہ، طالبان کے ہاتھوں اپنی شکست میں ہمیں بھی ذمہ دار قرار دیتا ہے پھر چین کے ساتھ شراکت داری کے بعد تو معاملات بالکل ہی واضح ہو چکے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو ہرگز ہرگز طاقتور دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں زیادہ قصور تو ہمارا اپنا ہی ہے۔ ہماری سیاسی، سفارتی اور معاشی غلطیاں ہمیں اس مقام تک لے آئی ہیں کہ آج ہمیں آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط وصول کرنے کے لئے عوام پر مہنگائی لادنا پڑ رہی ہے۔ ڈالر حاصل کرنے کے لئے عوامی معیشت کا اپنے ہاتھوں سے کباڑا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری عوامی معیشت تو مکمل طور پر فنا کی گھاٹ اتر چکی ہے۔عام شہری بس آخری سانسیں لے رہا ہے۔ قومی معیشت آئی ایم ایف کے اشارہ ابرو کی مرہون منت ہے۔ اگر آئی ایم ایف نے ہمیں ”گواھیڈ“ نہ دیا تو ہم عملاً ڈیفالٹ زدہ ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف جس انداز میں اپنی شرائط منوا رہا ہے معاہدہ کرنے میں تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ کہیں اور بھی معاملات طے ہو رہے ہیں جب تک وہ طے نہیں ہو جاتے آئی ایم ایف ہمیں یونہی خجل خوار کرتا رہے گا۔ ایسے پس منظر میں رضاربانی کا وزیراعظم سے مطالبہ مبنی برحق لگتا ہے کہ انہیں فوراً قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ درست صورت حال قوم کے سامنے رکھنی چاہئے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔
ویسے احوال واقعی تو ایسا ہی ہے کہ ہمارے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات اس قدر ابتر ہو چکے ہیں عوام میں بے یقینی اور اپنے حال سے بے زاری اس قدر فروغ پا چکی ہے کہ اب نہ تو مسئلہ کشمیر کے ساتھ دلچسپی اور وابستگی رہ گئی ہے اور نہ ہی ایٹمی اثاثوں کی فکر ہوسکتی ہے۔ کسی کے بچوں کو جب روٹی نہیں ملے گی، شیرخوار، بچوں کو دودھ نہیں ملے گا، بیماروں کو دوا میسر نہیں ہو گی، عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا، حکومت سے تحفظ حاصل نہیں ہو سکے گا تو ان کی بلا سے کشمیر جائے بھاڑ میں اور ایسے ہی ایٹمی اثاثے ہوں گے۔ ہمارے شیخ الکبیر استاذ عبداللہ عزامؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’بھوکا صرف روٹی کی طرف دیکھتا ہے روٹی دینے والے ہاتھ کی طرف نہیں‘ بالکل ایسی ہی صورت حال ہماری ہو چکی ہے۔ ہمارے حکمران بشمول ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے کھیلوں میں مصروف ہے انصاف بک رہا ہے، مافیاز دندنا رہے ہیں، درندگی اور آوارگی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ایک وقت کی روٹی ہی مل جائے تو عوام صبر شکر کر لیں گے۔ اس لئے لگتا ہے کہ دشمن اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے کو ہے۔ آج نہیں تو کل ہم خسارے میں جانے والے ہیں۔ ویسے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا جون تک ہمارے معاملات چل نکلیں گے لیکن ڈیفالٹ ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا ہمیں جون 2023 کے بعد بھی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ پھر اس کی شرائط ہوں گی۔ امریکی شرائط ہوں گی۔ ہم ایسے ہی کھڑے ہوں گے بے یارومددگار۔ اپنے اثاثے چھننے کے خوف میں مبتلا، دشمن کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوں گے۔