حکومت کو کچھ وقت دیں

حکومت کو کچھ وقت دیں

پٹ سیاپا کی سیاست تو جاری رہے گی کہ اسے ختم ہونے میں وقت لگے گا لیکن لانگ مارچ کی مکمل ناکامی کے بعد سوشل میڈیا کے ببر شیر جو لانگ مارچ کی اگلی قسط کے لئے سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا کئے ہوئے تھے ان کی امیدوں پر پانی تو کیا پورا سیلابی ریلہ ہی گذر گیا ہے۔ ہم نے جمعرات یکم جون کو شائع ہونے والے اپنے کالم ’’ کیا دائروں کا سفر جاری رہے گا‘‘ میں عرض کیا تھا کہ ’’ ہمارا خیال ہے کہ تحریک انصاف موجودہ نظام کو قبول کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے مستعفی ارکان کو اسپیکر کے سامنے جانے سے منع کیا ہے کہ نہ تصدیق ہو گی اور نہ اسپیکر استعفے قبول کریں گے ۔ اس لئے اب اسے لانگ مارچ یا اسلام آباد میں دھرنے سے کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں رہی بلکہ اس طرح تحریک انصاف ملک میں بے یقینی کی فضا کو قائم رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس سے زیادہ سے ز یادہ معاشی ابتری پھیلے اور موجودہ حکومت ناکامی سے دوچار ہوتی رہے‘‘ اور ہماری بات سچ ثابت ہوئی ۔ خان صاحب کردار کے نہ سہی لیکن گفتار کے تو زبردست غازی ہیں وہ گفتگو کرنا یا زیادہ درست یہ ہو گا کہ خان صاحب اور تحریک انصاف کی قیادت جھوٹ بولنے کا فن جانتی ہے۔اس فن میں وہ کس حد تک طاق ہو چکے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے خاتمہ کے آخری دن تک اگرکوئی مسئلہ ہوا تو تحریک انصاف کی پوری قیادت نے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیا اور اس کا الزام بھی سابقہ حکومتوں پر رکھ دیا اور مقلدین بھی اتنے عقلمند ہیں کہ خان صاحب نے جو گولی دی انھوں نے اسے خوشی خوشی نگل لیا ۔اب وہی تحریک انصاف جس نے حکومت میں آنے سے پہلے دعوے کئے تھے کہ ہر کام ہو گا نوے دن میں ۔ جب 2018میں اس کی حکومت آئی تو حکومت میں آنے کے چند روز بعد ہی ہر روز حکومت کوئی نہ کوئی ’’چن‘‘ چڑھا دیتی تھی کچھ لوگوں نے جب ان حماقتوں پر حکومت کے لتے لینے شروع 
کئے تو اکثریت کی رائے تھی کہ حکومت کو کچھ وقت دینا چاہئے تاکہ چالیس روپے لیٹر پیٹرول بھی ہو جائے ۔ ایون صدر وزیر اعظم ہاؤس اور تمام گورنر ہائؤسز یونیورسٹیاں بھی بن جائیں کہ جن کا وعدہ خود خان صاحب نے کیا تھا لیکن شومئی قسمت کہ نہ ایسا ہونا تھا اور نہ ایسا ہوا ۔
اب وہی تحریک انصاف جو اقتدا ر میں آنے کے بعد کبھی سو دن مانگتی تھی اور پھر کبھی سال کا وقت مانگتی نظر آئی اور حکومت کے آخری دنوں تک جس کا حامی میڈیا قوم کو یہ کہتا رہا کہ ستر سال کاگند چار سالوں میں تو صاف نہیں ہو سکتا وہی تحریک انصاف اس کی قیادت اور اس کا حامی میڈیا موجودہ حکومت کو قائم ہوئے ابھی دو ماہ نہیں ہوئے لیکن پہلے دن سے لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ بندہ پوچھے کہ انھیں کس نے یہ خبر دی ہے کہ موجودہ حکومت کے ہاتھ پہلے دن ہی الہ دین کا چراخ لگ گیا تھا کہ جسے رگڑنے سے جن نے حاظر ہو کر ہاتھ باندھ کر پوچھنا ہے کہ کیا حکم ہے میرے آقا اور حکومت نے ڈالروں اور پیٹرول سمیت جس جس بات کی فرمائش کرنی تھی اسے پلک جھپکتے ہی پورا کر دینا ہے ۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ سسٹم میں بجلی ہونے کے باوجود بھی حکومت لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس سے حکومت کو بدنامی کے سوا اور کیا حاصل ہو رہا ہے اور اگر کوئی یہ سوچ رکھتا ہے کہ حکومت نے محض شوق کی خاطر پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں تو تحریک انصاف کے آئی ایم ایف سے معاہدے کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کا الزام بھی موجودہ حکومت پر نہیں رکھا جا سکتا البتہ دشنام طرازی کا معاملہ الگ ہے جو عمران خان کا ہمیشہ سے محبوب مشغلہ رہا ہے اور اس فن میں ان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں ہے ۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر بندہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس حکومت کو آئے ہوئے ابھی دو ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے اور اتنے کم عرصہ میں سوال یہ ہے کہ آخر اس حکومت نے ایسا کیا کر دیا کہ ڈالر کو بھی پنکھ لگ گئے اور پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں بھی بڑھانی پڑ گئیں ۔ یہ کام حکومت نے کس درجہ مجبوری کے عالم میں کیا ہے اس کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس حد تک حکومت اس انتہائی نا مقبول کام سے گریز کر سکتی تھی حکومت نے کیا لیکن پھر وہ بیرونی سازش کہ جس کے تحت تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد پاکستان کو معاف کر دینا تھا تو اس کو ذرا الٹ کر کے دیکھ لیں کہ وہ بیرونی سازش کہ جس کے تحت تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدام اعتماد کی منظوری کی صورت میں پاکستان کو عبرت کی مثال بنانا تھا اس پر نئی حکومت کے آنے کے فوری بعد عمل شروع ہو گیا ۔
موجودہ حکومت کا ستیاناس کرنے کے لئے اول تو خان صاحب اپنے دور حکومت میں ہی معیشت کا کافی حد تک بیڑا غرق کر کے گئے تھے اور اس کا علم دنیا کے مالیاتی اداروں سمیت دنیا کی سپر پاور کو بھی تھا ۔ باقی جو کسر رہ گئی تھی اسے پورا کرنے کے لئے وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا برقرار رہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ بہادر نے حکومت کو ہاتھ پکڑایا اور نہ ہی ماضی کی روایات کے برخلاف کسی برادر اسلامی ملک نے ہمیں لفٹ کروائی اور اس سے بھی بڑھ کر چین نے بھی کوئی خاص تعاون نہیں کیا ۔ایسا لگ رہا تھا کہ موجودہ حکومت کے آتے ہی کسی نے موت کے فرشتہ کو پاکستان کے طول و عرض میں اڑنے کا خصوصی ٹاسک دے دیا تھا کہ کسی جانب سے کوئی توقع پوری نہیں ہو رہی تھی اور مشکلات ہر گذرتے لمحہ کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی ۔ ایک جانب سیاسی غیر مقبولیت کے شدید خدشات تھے لیکن دوسری جانب ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے تھے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور اس کے تمام اتحادی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ جنھوں نے سیاسی عدم مقبولیت کے وار سینے پر جھیلنے کا فیصلہ کیا لیکن مشکل معاشی فیصلے کر کے ملک کو والیہ ہونے سے بچا لیا ۔

مصنف کے بارے میں