بائیس افسروں پر اعتراض،مگر کیوں؟

بائیس افسروں پر اعتراض،مگر کیوں؟

جمہوری نظام میں تین اداروں کو ریاستی ستون قرار دیا گیا، مقننہ کے بغیر اگر ریاست ادھوری ہے تو عدلیہ کے بغیر ریاست کا تصور ممکن نہیں اور انتظامیہ کے بغیر کسی حکومت کا کامیابی سے بر سر اقتدار رہنا نا ممکن،یہ بیوروکریسی ہے جو عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بناتی ہے، حکومت کے عمال کی حیثیت سے ہر پل ہر گھڑی میدان عمل میں رہتی ہے، حکومتی فیصلوں کے مطابق ریاستی امور کو چلاتی ہے،بر سر اقتدار سیاسی جماعت کے منشور کے مطابق معاملات آگے بڑھاتی ہے،حکومتی پالیسیوں کو عملی شکل دیتی ہے۔ یہی ادارہ ریاستی قوانین پر عملدرآمد یقینی بناتا ہے،جن سے عوام کو براہ راست ریلیف ملتا ہے،یہی ادارہ ظالم کا ہاتھ روکتا اور مظلوم کو عدالتی حکم پر تحفظ دیتا ہے،یہ بیوروکریسی ہے جو آئین، قانون، قاعدے، ضابطے سے نا بلد وزراء کو حکمرانی کا ڈھنگ سکھاتی ہے،جو بنیادی انسانی حقوق کی نگہبان اور عوام کو ضروریات زندگی کی اشیاء کی فراہمی کا بیڑہ بھی اٹھائے ہوئے ہے،ریاست پاکستان کے یہ ملازم کسی سیاسی جماعت کے کارکن نہیں مگر سیاسی جماعتوں نے بیوروکریسی کو دوست دشمن میں تقسیم کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے، یہ افسر میرا یہ تیر ا، یہ فلاں کا وفادار یہ فلاں کا دوست،جیسے عدلیہ کو تقسیم کر کے جج صاحبان کو جانبدار ظاہر کیا جا رہا ہے ایسے ہی بیوروکریٹس کو بھی ریاست کے بجائے حکمرانوں کا وفادار بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو اس ادارے کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے،جو ادارہ انتظامیہ کہلاتا ہے اور جس نے ریاست کے انتظام و انصرام کو سنبھالنا ہے اسے متنازع بنا کر تقسیم کر کے کیسی انتظامیہ کی خواہش کی جا رہی ہے، ریاست کی یہ کیسی خدمت ہے؟
دوسری طرف بیوروکریسی بھی ان حالات کی کچھ ذمہ دار ہے، بہت ہو چکا اب ضرورت ہے کہ وہ اپنا مثبت چہرہ سامنے لائے اور غیر جانبداری سے امور ریاست کی انجام دہی کرے،منتخب حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد بیوروکریسی کی ذمہ داری،لیکن قاعدہ قانون کو ملحوظ رکھنا بھی ان ہی کے ذمہ ہے،یہ وہ نازک مرحلہ ہے جہاں بیوروکریسی کے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا خود کو غیر جانبدار اور ضابطے کا پابند بنا کر تیرا میرا کے لگے ٹھپے کو مٹانا ہو گا،حکومت کسی کی بھی ہو جمہوریت یا آمریت،سول یا فوجی،پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن،تحریک انصاف یا کسی اور کی، بیوروکریسی کو سب کیساتھ مل کر کام کرنا اور چلنا ہے لیکن سروس یا ادارہ کی توہین کی قیمت پر ایسا نہیں ہونا چاہئے، کسی بھی غیر آئینی حکم کی بجا آوری سے انکار ممکن ہے وقتی نقصان یا عتاب کا شکار ہونا پڑے مگر مورخ کی نظر میں یہ کارنامہ ہو گا،وقت کی حکومت اور اپوزیشن بھی بیوروکریسی کو اعتماد دے،انتظامی ادارہ کو بہتر بنانے کیلئے اپنا آئینی کردار ادا کریں ورنہ اچھی حکمرانی کو بھول جائیں،سیاست اپنی اپنی مگر بیوروکریسی سب کا اثاثہ ہے، اس لئے بیوروکریسی سب کی ہونی چاہئے۔
ان دنوں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پروونشل مینجمنٹ سروس اور پولیس سروس آف پاکستان کے بائیس افسران کی ایک لسٹ زیر بحث ہے، انتظامی افسروں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، ایسی لسٹیں نہیں آنی چاہیے،پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ یہ افسران ان کے نزدیک متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں اس لئے پنجاب اسمبلی کے ہونے والے آئندہ انتخابات کے تناظر میں ان افسروں کو پنجاب میں پوسٹ نہ کیا جائے۔یہ لسٹ دیکھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ جس نے بھی یہ لسٹ مرتب کی ہے اس نے شائد کسی ذاتی عناد کی بنیاد پر یہ نام دیے ہیں۔ان افسروں کی اکثریت نے تمام حکومتوں کے ساتھ کام کیا ہے خصوصی طور پر پی ٹی آئی کی سابقہ پنجاب اور وفاقی حکومت میں بھی ان افسروں کی غالب اکثریت نے کام کیا اور اگر یہ افسر متنازعہ تھے تو انہیں پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں اہم پوسٹوں پر کیوں تعینات کیا؟ اگر ان افسروں کا سروس ریکارڈ سامنے لایا جائے تو پی ٹی آئی ان کو متنازعہ کہنے والے اپنے موقف کو جسٹی فائی نہیں کر سکے گی۔ ان میں سے کچھ افسر تو پی ٹی آئی حکومت کے بہت چہیتے تھے اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار انہیں نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ ان کے کام کی تعریف کیا کرتے تھے۔بائیس افسروں کی اس لسٹ میں ریاست مدینہ کے اصولوں پر کار بند اور فرشتہ تو شائد کوئی بھی نہیں مگر ایسا بھی کوئی نہیں جس کی محنت اور لیاقت پر کوئی شک کیا جا سکے یا اسے سکہ بند،جانبدار کہا جا سکے۔یہ افسر اگر ہر دور میں نظر آتے ہیں تو ا ن کے پیچھے کوئی سیاست دان،پارٹی یا کوئی اور نہیں ان کی محنت،لگن اور کام ہوتا ہے۔اس فہرست میں موجودہ گورنر کے سیکرٹری نبیل اعوان کا نام سر فہرست ہے جو پی ٹی آئی کے دور میں پنجاب کے بہترین سیکرٹری صحت تھے، کیپٹن عثمان یونس پی ٹی آئی کے دور میں سیکرٹری صحت رہنے کے علاوہ لاہور کے کمشنر رہے اور اگر یہ مسلم لیگ ن کے چہیتے ہوتے تو انہیں چیف کمشنر اسلام آباد کے عہدے سے ہٹایا جاتا نہ اب تک پنجاب میں او ایس ڈی رکھا جاتا،عمر شیر چٹھہ وزیر اعظم عمران خان کے ضلع میانوالی کے ڈپٹی کمشنر تھے اور انہیں اچھی کارکردگی کی بنا پر صوبائی دارلحکومت لاہور کا ڈپٹی کمشنر بنایا گیا،سمیر احمد سید،بزدار دور حکومت میں ڈی جی ایل ڈی اے اور کئی دوسری اہم پوسٹوں پر نہایت اچھی پرفارمنس دیتے رہے،محمد علی رندھاوا انتہائی اپ رائٹ اور محنتی افسر ہیں،اجمل بھٹی کو پنجاب میں انرجی جیسے اہم محکمہ کا سیکرٹری لگایا گیا اور انہوں نے سیکرٹری صحت جنوبی پنجاب بھی اچھا کام کیا وہ اس وقت کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی گڈ بکس میں تھے،احمد رضا سرور کی قابلیت اور محنت پر کوئی شک ہی نہیں کر سکتا وہ پی ٹی آئی دور میں مختلف محکموں کے اچھے سیکرٹری رہے۔عامر کریم خان اڑھائی سال تک پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ بزدار کے ساتھ تعینات رہے اور بعدازاں انہیں ساڑھے آٹھ ماہ تک ڈپٹی کمشنر ملتان لگایا گیا،حیرت کی بات ہے کہ ایک متنازعہ افسر کو اتنی اہم پوسٹوں پر تعینات کیا گیا؟ ڈاکٹر راشد منصور کو ریٹائرڈ ہوئے بھی کئی ماہ ہو چکے ہیں، سید علی مرتضیٰ پی ٹی آئی دور میں پنجاب کے مختلف اہم محکموں کے سیکرٹری رہے اور اگر اس وقت کے وزیر اعلیٰ بزدار کا بس چلتا تو وہ انہیں چیف سیکرٹری لگا دیتے، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان اور سی سی پی او بلال صدیق کامیانہ پی ٹی آئی کے دور میں پنجاب میں زیادہ دیر یا اہم پوسٹوں پر نہیں رہے مگر وہ محنتی اور گو گیٹر افسر ہیں اپنا ٹاسک پورا کرنے کے ماہر ہیں،راو سردار علی پی ٹی آئی کے دور میں پنجاب کے آئی جی رہے،رضا صفدر کاظمی محنتی افسر ہیں اور ان کی سروس زیادہ تر لاہور میں رہی،سہیل چودھری،بابر سرفراز الپہ بھی اہم پوسٹوں پر تعینات تھے،سہیل ظفر چٹھہ،رانا ایاز سلیم اور علی ناصر رضوی نے اگرچہ پی ٹی آئی دور میں پنجاب میں زیادہ عرصہ کام نہیں کیا مگر ان کا شمار اچھے پولیس افسروں میں ہوتا ہے،اگر کل کلاں پھر پی ٹی آئی حکومت آئی تو یہی افسر اس کا اثاثہ ہوں گے،آخر میں پی ٹی آئی کے اکابرین سے کہوں گا،،آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں،،سیاست کریں ایک دوسرے کیلئے نفرتوں کے بیج نہ بوئیں۔