پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں خاموش مفاہمت، مرضی کے نگران وزیر اعلیٰ کیلئے اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے کا فیصلہ 

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں خاموش مفاہمت، مرضی کے نگران وزیر اعلیٰ کیلئے اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے کا فیصلہ 

کراچی : پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنی مرضی کی نگراں حکومت بنانے کے لئے اپوزیشن لیڈرکو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس مقصد کے لئے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں غیر اعلانیہ مفاہمت ہو گئی ہے۔ 

سینئر صحافی سہیل افضل کی رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت کی درخواست پرسندھ اسمبلی کا اجلاس بدھ 12جولائی کو طلب کرلیا گیا ہے گورنر سندھ نے اجلاس کی طلبی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا بدھ سے شروع ہونے والا سیشن اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس اجلاس میں سندھ اسمبلی میں نئے لیڈر آف دی اپوزیشن کی تبدیلی کا قوی امکان ہے۔

حلیم عادل شیخ کی جگہ ایم کیو ایم کے کسی نامزد رکن کو نیا اپوزیشن لیڈر منتخب کر لیا جائے گا کیونکہ 9مئی کے واقعات کے بعد سے حلیم عادل شیخ ایوان سے مسلسل غیر حاضر ہیں اور سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہورہے ہیں.  پی ٹی آئی کے تین منحرف ارکان کے علاوہ باقی تمام دوسرے ارکان سندھ اسمبلی بھی ایوان سے غائب ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔ 9 مئی کوہونے والے واقعات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے نالاں ہے جس کا فائدہ سندھ کی 2 بڑی سیاسی جماعتیں اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایم کیو ایم سے غیر اعلانیہ انڈر اسٹینڈنگ ہو چکی ہے اور امید ہے کہ یہ عہدہ ایم کیو ایم کے علی خورشیدی کو مل جائے گا ۔ سندھ اسمبلی میں اگر اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی عمل میں آئی تو یہ بہت مختصر مدت کے لئے ہوگی کیونکہ 13اگست کو موجودہ سندھ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہے اور سندھ اسمبلی کی تحلیل سے محض چند ہفتے قبل نیا اپوزیشن لیڈر بہت تھوڑے عرصے کے لئے اپنے منصب پر فائز رہ سکے گا البتہ اس کا کردار اس لحاظ سے اہم ہوگا کہ سندھ اسمبلی کی تحلیل کے بعد صوبے میں نگراں وزیر اعلیٰ کی تقرری کے لئے جو آئینی طریقہ کار ہے اس کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت ضروری ہے۔ 

پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنما اور رکن اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے حوالے سے واضح تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کچھ آئین کے مطابق کریں گے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف سندھ نے اس اقدام کو الیکشن سے قبل دھاندلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس غیر قانونی عمل کو چیلنج کریں گے۔

مصنف کے بارے میں