حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے 28 برس بیت گئے

حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے 28 برس بیت گئے
کیپشن: حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے 28 برس بیت گئے
سورس: file

لاہور: اردوکے معروف ترین  انقلابی شاعر حبیب جالب  کو انکے مداح انکی  28 ویں برسی کے موقع پر یاد کر رہے ہیں۔جالب آخری دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانےکے لیے آواز بلند کرتےرہے۔

غربت کی کوکھ سے جنم لینے والےحبیب جالب نے مشکل حالات میں بھی عوام کیلئے آواز اٹھائی  اور انکے حقوق  کے لئے آخری سانوں تک جابرحکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی۔

حبیب جالب بھارتی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں 24 مارچ 1928 کو پیدا ہوئے۔جالب نے پاکستان کی محبت میں 1947 میں ہجرت کی۔ترقی پسند سوچ اور انقلابی شاعری کی وجہ سے حکمرانوں کے معتوب ٹھہرے

مزدور یونینز کے جلسوں میں  حبیب جالب کی نظمیں زبان زد عام ہوتی ہیں ۔ملک کا بے زبان مزدور  حبیب جالب کا مداح بن گیا۔ صحافت کو ذریعہ معاش بنایا، نظمیں مختلف رسالوں اور اخباروں کی زینت بنتی رہیں۔  مس ففٹی سکس اور ماں بہو بیٹا سمیت مختلف فلموں کے لیے نغمہ نگاری   بھی کی۔

 فلم زرقا کے گیت ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

آنکھ نے جو دیکھا اور دل نے جو محسوس کیا۔جالب صاحب  نتائج کی پروا کئے بغیر آسان الفاظ اور دلوں کو چھو لینے والے انداز میں انہیں اشعار کی شکل دے ڈالی۔انکی شہرہ آفاق نظم ’’میں نہیں مانتا‘‘ سیاسی حلقوں میں بھی خاصی مقبول ہوئی۔

بے باک قلم نے ظلم، زیادتی،  ناانصافی اور عدم مساوات سےمتعلق جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہو گیا۔بیرون ملک  بھی جہاں جہاں حق  کے لئے آواز اٹھائی گئی۔۔ کلام جالب نے اسے نئی قوت بخشی۔

ان کی نظموں پر مشتمل پانچ مجموعے برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، ذکر بہتے خون کا اور گوشے میں قفس۔نوجوانوں کے لئے مسٹ ریڈ کا درجہ رکھتی ہیں۔