سیاسی و معاشی تغیرات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت

 سیاسی و معاشی تغیرات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت

گزشتہ ایک دو دہائیوں کے دوران تیزی سے رونما ہونے والی جیو پالیٹیکل چینجز تقاضا کرتی ہیں کہ پاکستان پر ان کے اثرات پر گہری نظر رکھی جائے۔ یورپ اور ایشیا ایک ہی خطہ تھے انہیں صرف کاکیشیا کے دشوار گزار رعلاقوں نے ایک دوسرے سے جدا جدا کر رکھا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بدولت جنم لینے والی گلوبلائزیشن نے اس تقسیم کو مٹا دیا ہے۔ چین چھ بڑے راستوں پر مشتمل بیلٹ اینڈ روڈ پر کام کر رہا ہے جس میں پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ شامل ہے۔ ان میں سے بعض کی تکمیل ہو چکی ہے اور بعض پر کام جاری ہے۔ یہ منصوبہ یورپ اور ایشیا کی سر زمین پر سفر کے نئے راستے کھول دے گا۔ آج جو کنٹینر چین سے یورپی بندر گاہوں پر سمندر کے راستے 45 دن میں پہنچتا ہے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی تکمیل کے بعد صرف 16 دن تک محدود ہو جائے گا۔ نئے تجارتی راستے نئے سیاسی اتحاد بنا رہے ہیں۔ مغربی ایشیا میں کمیونزم کے پھیلاؤ اور توانائی کے ذخائر کو چین اور سابق سوویت یونین کی دسترس سے دور رکھنے کے لئے معاہدہ سینٹو نے 1955ء سے 1979ء تک ایران، عراق، پاکستان، ترکی اور برطانیہ کو یکجا کئے رکھا۔ آج صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے، پاکستان ، ترکی اور ایران مغربی دنیا کی نظر میں نا پسندیدہ ہیں جب کہ روس اور چین کے ساتھ ان تینوں ممالک کا دوستانہ تعلق بن چکا ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا کا نقشہ ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا ہو گا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے سمندری راستوں کی صورتحال تبدیل کر دی ہے۔ ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی کے امکانات اس سے منسلک ہیں۔ انفرا سٹرکچر اور صنعتوں کی ترقی، زراعت کی بہتری اور دنیا کے لئے پاکستان میں نئے مواقع اس منصوبے کے ثمرات ہیں۔ ہمارا ملک ایک دلچسپ دورسے گزر رہا ہے۔ موجودہ حکومت ملکی معیشت کو راہِ راست پر لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ ہمیں حالیہ سیاسی و معاشی تغیرات کا فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری اصلاحات کر لینی چاہئیں۔   
ہماری برآمدات میں بہت کمی آ گئی ہے، ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ چونکہ اب سی پیک کے تحت ہمارا ساری دنیا سے رابطہ ہونے جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے امپورٹرز کو راغب کرنے کے لئے سی پیک کے تحت بننے والی بیلٹ اینڈ روڈزپر ہینڈی کرافٹ پارک بنائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے ہینڈی کرافٹ پارک میں زیادہ تر پیکنگ اور ایکسپورٹ کا کام ہونا چاہئے جہاں غیر ملکی خریدار اپنے سامنے پروڈکٹ تیار کرا سکتے ہوں اور اپنے سامنے ہی سی سی ٹی وی کیمرے کی نظر میں پیکنگ بھی کرا سکتے ہوں، یہاں تک کہ انہی علاقوں میں جننگ، سپننگ، ویونگ، ڈائینگ، پیکنگ وغیرہ کے تمام مراحل طے کئے جا سکتے ہیں۔ پارک سے سیدھے کنٹینر لوڈ کرنے کی سہولت بھی ہونی چاہئے۔ اس سے جہاں ایکسپورٹ بڑھے گی وہیں متعلقہ علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ٹیکسٹائل کلسٹر بھی بننے چاہئیں۔ اس طرح غیر ملکی خریدار اپنے سامنے پراڈکٹ بنتے دیکھ سکیں گے۔ ہینڈی کرافٹ پارک میں ہر سال نمائش لگائی جا سکے گی ۔ آج کل زیادہ تر غیر ملکی خریدار اپنے سامنے پراڈکٹ بنتی اور پیکنگ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں یہاں ایسی سہولت دینے سے ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ ہینڈی کرافٹ پارک میں پیکنگ سے لوڈنگ تک سب سی سی ٹی وی کمرے میں ریکارڈنگ ہونی چاہئے تا کہ کسی طرح بھی غیر ملکی خریدار کے ساتھ دھوکہ دہی نہ وہ سکے۔ 
اس کے علاوہ برآمدی یونٹوں کے لئے ترغیبات اور اندرون ملک تجارتی ترقی کے لئے مراعات سمیت ایسے متعدد اقدامات کئے جا سکتے ہیں جن سے برآمدات بڑھانے میں مدد ملے۔اس وقت اندازے کے مطابق عالمی مارکیٹ میں ہماری برآمدات کی ڈیمانڈ میں 30 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے ہماری درآمدات برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی ہیں جس سے ملکی تجارتی خسارہ بہت بڑھ گیا ہے۔ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لئے کاشتکاروں، صنعت کاروں اور تاجروں کو مراعات و ترغیبات فراہم کرنے کے علاوہ ان پہلوؤں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہو گی جو برآمد کنندگان کو بیرونی تجارت کے لئے ملنے والے آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔پاکستانی برآمدات کی کوالٹی کی اچھی طرح چھان پھٹک کی جائے، کارخانوں کے ماحول کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کیا جانا چاہئے، ایکسپورٹ انڈسٹری کے خام مال کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ پچھلے کئی برس سے جاری تجارتی خسارے سے قومی معیشت کو لاحق خطرات دور کرنا ہی ہمارے اکنامک منیجرز کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔ انہیں ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہئے کہ درآمدات و برآمدات کا عدم توازن دور ہو، برآمدات میں قیمتوں اور کوالٹی کے اعتبار سے دوسرے ممالک کے ساتھ مسابقت ممکن ہو اور کاروبار کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو گھٹا کر بین الاقوامی مسابقتی سطح پر لایا جا سکے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل ہمارے لئے بڑی اہم ہے اس سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے بروقت اقدامات کر لینے چاہئیں۔ سی پیک کی تکمیل کے بعد اپنے ملک کو اس خطے میں ٹرانس شپمنٹ کا مرکز بنا لیں اس روٹ سے جو تجارت ہو اس کے لئے ہم ویئر ہاؤس کا کردار ادا کریں اور مال کی دونوں طرف ترسیل کرتے ہوئے کچھ ویلیو ایڈیشن کر دیں تو شائد ہم آنے والے دس بیس سال میں ملک میں غربت کو کافی حد تک کم کر سکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے پھر ہمیں امداد کی بھی اتنی زیادہ ضرورت نہ پڑے اور ہم قرضوں کا بوجھ بھی کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔