غلبے کی جنگ

غلبے کی جنگ

روس کی یوکرین میں مسلسل پیش قدمی جاری ہے جواب میںیوکرین بھی امریکہ اور مغربی اتحادیوں سے ہتھیارلیکر گوریلا طرز کی لڑائی لڑرہا ہے جبکہ نیٹو اِس آڑ میں غلبے کی جنگ میں مصروف ہے جس سے لڑائی طویل ہونے کاخدشہ ہے امن کے لیے جب نیٹو کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں تو یہ تنظیم کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز قدم اُٹھانے سے گریزاں بلکہ امن کی آڑ میں جنگ کو طول دیتی نظر آتی ہے امریکہ اور یورپی ممالک نے یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافہ کر دیا ہے مگر روسی میزائل نظام کے جواب میں امریکی الٹرا سونک میزائل کے تجربے کی ناکامی ایسا دھچکا ہے جس سے میزائل سازی میں روس کی برتری ثابت ہوگئی ہے اسی لیے امریکہ اور یورپی ممالک نے یوکرین کو توپ خانہ قسم کا دورتک تیزی سے مارکرنے والا راکٹ نظام دینے اورمیزائلوں کی ترسیل بڑھا دی ہے تاکہ اُس کی فوج روسی طاقت پر کاری وار کر نے کے قابل ہوسکے اِن ہتھیار وں سے ہزیمت دینا ممکن نہیںفریقین میں لفظی جنگ بھی جاری ہے نیٹو نے روس کو بڑاخطرہ سمجھتے ہوئے مشرقی یورپ میں مزید فوج تعینات کرنے کامنصوبہ بنایا ہے ایسا ہونے کی صورت میں پیوٹن نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے ایسے اقدامات امن کے منافی ہیں اسی لیے نیٹو کی طرف اُٹھنے والی امن پسندوں کی نظریں مایوس لوٹ آتی ہیں یوکرین میں جاری جنگ کے شعلوں میں یوکرینی عوام جل رہے ہیں پھربھی نیٹو جنگ کو طویل عرصہ جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ روس کو نیچا دکھانے اورغلبہ پانے جیسے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ 
میڈرڈ میں منعقد ہونے والے نیٹو کے حالیہ سربراہی اجلاس کی خاص اور چونکادینے والی بات یہ ہے کہ تنظیم کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے یہ اعتراف کیا کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے حوالے سے نیٹو ملوث ہے تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے پہلی بار برسرِ عام روس کو بڑے تنازع میں ملوث کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 2014 میں یوکرین میں ہونے والی بغاوت کے بعد سے امریکی قیادت میں نیٹو نے روس سے مقابلہ کرنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اِس حوالے سے تیاری بھی شروع کر دی تھی یہ ایسا انکشاف ہے جس پر امن پسند حلقے ششدر ہیں کیونکہ بظاہر نیٹوکا دعویٰ یہ ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے مابین جاری لڑائی ختم کراناچاہتا ہے تاکہ خطے میں امن قائم ہو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے اعتراف کے بعد کوئی ذی شعورامن کے دعوے کو تسلیم کرے گا؟شاید ہی ایسا ہو کیونکہ مقابلہ کرنے کا فیصلہ اور تیاری کا آغاز ثابت کرتا ہے کہ امن پسندی کے 
دعوے محض ڈھونگ ہیں قول وفعل کا یہی تضاد ہی اقوامِ عالم کی سب سے بڑی دفاعی تنظیم کے متعلق دنیا کے شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے ایسی اطلاعات بھی منظرِ عام پر آچکی ہیں کہ نیٹو نے 2015میں یوکرینی فوج کی تربیت شروع کردی تھی تاکہ اُسے نیٹوکے معیار کے مطابق بنایا جا سکے اسی تربیت کی بناپریوکرینی دستوں نے ڈونباس میں روسی نسل کے لوگوں کو کچلتے ہوئے انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائیں جس پر روس نے یلغار جیسا انتہائی قدم اُٹھایا اب جب روسی فوجوں نے یوکرین پر چڑھائی کردی ہے تو نیٹو کے ممبر ممالک پابندیاں لگانے اور آنسو بہا کر دنیا کو یقین دلانے کی کوشش میں ہیں کہ وہ تو امن پسندہے روس نے سرحدوں کے باہر کارروائی کرکے دنیا کا امن ختم کر دیا ہے مگر اِ س فوجی کارروائی میں نیٹوتنظیم کا اِس وجہ سے اہم کردار ہے امریکی سربراہی میںنیٹو نے ایک تو یوکرین کونیٹو کا ممبر بنانے کا لالچ دیا دوسراروس کے مقابلے پر ڈٹ جانے کی تلقین کرتے ہوئے کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں روس کو نیٹوکی طرف سے سخت جواب دینے کی یقین دہانی کرائی لیکن اب نیٹو کے ممبر ممالک روس پر معاشی پابندیاں لگانے اور یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے تک محدودہیں کیونکہ اُن کاواحد مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ لڑائی کو طول دینا ہے تاکہ روس کی معیشت تباہ کی جا سکے روس کو یوکرین میں الجھانے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ نیٹو کی توسیع سے اُس کی توجہ ہٹ جائے یوکرین کی قربانی کے عوض یورپ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ بنانا ہے۔
دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے نیٹو کے متعلق ابہام ہیں اِس تنظیم کے پیش نظرامن نہیں دنیا پر دھاک بٹھانا ہے حال ہی میں جرمنی اور فرانس کی طرف سے منسک معاہدے کو وقت گزاری کے لیے ایک دھوکہ قرار دینااِس خیال کی تائید کرتاہے معاہدے سے نیٹونے کریمیا اور ڈونباس پر یوکرین کا قبضہ مستحکم بنانے کے لیے اُس کے فوجی دستوں کی تربیت کرنے اور جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کا وقت لیاجرمنی اور فرانس کے اعتراف نے دنیا کے خدشات پر تصدیقی مُہر ثبت کرتے ہوئے تمام ابہام دور کردیے کہ امریکی سربراہی میں قائم نیٹو جیسی تنظیم فوجی حوالے سے اپنے ہم پلہ کسی طاقت کو برداشت نہیں کر سکتی اور اگر ایسا امکان ہوتو کسی ملک کو قربان کرتے ہوئے غلبہ قائم رکھنے کو یقینی بناتی ہے یہی کچھ یوکرین کی جنگ میں ہو رہا ہے۔
یوکرینی قیادت نے نیٹو کی ایما پر ہی کسی پُر امن حل جیسے مجوزہ تجاویز میں عدم دلچسپی دکھا ئی اور اب روس کو دندان شکن جواب دینے کے لیے مغربی اتحادیوں سے بڑے پیمانے پر ہتھیار حاصل کرنے کے لیے منت سماجت کرتی پھررہی ہے مگر چند ایک روسی شہروں کو نشانہ بنانے کے سوا کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپائی باوجود کوشش کے لوہانسک اور ڈونباس علاقوں پرقبضہ کھونے اور خودمختاری حاصل کرنے سے روک نہیں سکی یوکرینی قیادت تو قوم پر ستوں کو اِن علاقوں میں روس کی طرف جھکائو رکھنے والی اکثریت پر انسانیت سوز مظالم سے بھی بازنہ رکھ سکی بلکہ ایسے اقدامات کیے جس سے روسی النسل لوگوں میں عدمِ تحفظ کا احساس فروغ پائے اِن حالات میں جوابی قدم حیران کُن نہیں روس تو پھر ایک بڑی فوجی طاقت ہے اگر اُس کی سرحدوں پرنیٹو آکر بیٹھ جائے گا تو سلامتی کے اقدامات اُٹھانا اُس کا حق ہیں لیکن کچھ بھی ہو جنگ کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی نیٹو کو بھی سمجھنا چاہیے جنگ وجدل نہیں امن پسندانہ پالیسیاں ہی انسانیت کے لیے بہتر ہیں غلبہ حاصل کرنے کے لیے انسانی خون بہانا غلط ہے۔
نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک آرگنائزیشن نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سوویت یونین کو مزید علاقوں پر قبضہ کرنے اوراُنھیں اپنا حصہ بنانے سے روکااورپھر روس اور جرمنی کے درمیان معاہدہ ہونے کی بھی نوبت نہ آنے دی مگر اب میڈرڈ سربراہی کانفرنس کے دوران نیٹو نے آئندہ فوجی غلبہ برقراررکھنے کے لیے جو حکمتِ عملی ترتیب دی ہے اِس سے یورپ میں امریکی کردار بڑھانا ہے لیکن روس کو اِس حد تک کمزور کرنا جس کے بعد مقابلے کے بجائے زیرِ نگین رہنے پر صاد کرلے کی کامیابی کے بارے فوری طورپر کچھ کہنا مشکل ہے نیٹو میں چین کو الگ تھلگ رکھنے کی سوچ بھی موجود ہے حالانکہ روس اور چین سے بیک وقت محاذآرائی رکھنا ممکن نہیں جس کایورپ کو تونہیں البتہ امریکہ کو ادراک ہوگیاہے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ہونے والی جی ٹونٹی کانفرنس میں اِس کابھرپور عکس نظر آیاجہاں روس و یوکرین تنازع میں مداخلت سے چین کو بازرہنے پر امریکہ قائل کرنے میں مصروف دکھائی دیا امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے چینی ہم منصب وانگ یی سے پانچ گھنٹے تک طویل ملاقات کی بات چیت میں دونوں ممالک میں باہمی تعاون ،مفادات کی بنیاد پر دوطرفہ روابط بہتر بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے چین و امریکہ مشترکہ ورکنگ گروپ کی مشاورت کو فروغ دینے پر اتفاق ہوا نیٹو بحرالکاہل تک اپنی رسائی بڑھانے کے لیے جی سیون گروپ کو ساتھ ملاکربین الاقوامی قوانین کو روندنے پر بھی تیارہے یہ حکمتِ عملی اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے منافی ہے اپنے مفاد کے لیے انسانی خون بہانے کو جائز سمجھنا جنگ کو فروغ دیکر غلبہ بحال رکھنے کی سازش کرنا امن پسندی نہیں امن کی آڑ میں یہ ایسی سازش ہے جس کی تکمیل سے نسلِ انسانی کو لاحق خطرات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔

مصنف کے بارے میں