نمز اور یونیورسٹی کالج لندن کا مل کر کام کرنے پر اتفاق

نمز اور یونیورسٹی کالج لندن کا مل کر کام کرنے پر اتفاق

راولپنڈی: نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز (نمز) اور یونیورسٹی کالج لندن، انگلینڈ نے جینیاتی اعصابی عوارض پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے جس سے پاکستان میں نہ صرف ان عوارض سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کی جا سکے گی بلکہ دیگر کو بھی آنے والی نسلوں میں جینیاتی بیماریوں کے امکانات سے بچنے کے لئے کزن میرج سے اجتناب کرنے سے متعلق رہنمائی حاصل ہوگی۔

نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ڈیپارٹمنٹ آف بائیولوجیکل سائنسز (این ڈی بی ایس ) سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سارہ ممتاز، کوئین اسکوائر انسٹی ٹیوٹ آف نیورولوجی، یو سی ایل ، انگلینڈ سے پروفیسر آف نیورولوجی اور نیوروجنیٹکس ڈاکٹر ہنری ہولڈن کے تعاون سے پاکستان میں موروثی اعصابی عوارض پر تحقیق کر رہی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 29 ملین افراد کزن میرج سے منسلک جینیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔ پروفیسر ہولڈن نے وائس چانسلر نمز لیفٹیننٹ جنرل وسیم عالمگیر ایچ آئی (ایم) ، پرو وائس چانسلر اکیڈمکس میجر جنرل سلیم احمد خان (ریٹائرڈ) ، ڈین ملٹی ڈسپلنری سائنسز ڈاکٹر عائشہ محی الدین، این ڈی بی ایس کے سربراہ ڈاکٹر جواد حسن اور انسانی جینیات کے سیکشن اور این ڈی بی ایس کے فیکلٹی ممبران سے ملاقات کی اور دونوں اداروں کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔

پروفیسر ہولڈن ایک نیورولوجیکل کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان میں ہیں اور انھیں نمز نے اپنے پی ڈبلیو ڈی کیمپس میں ایک لیکچر دینے کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا۔ ان کا یہ دورہ نمز اور یو سی ایل کے درمیان پاکستانی آبادی میں موروثی اعصابی عوارض کے کلینیکل اور مالیکیولر تجزیہ کے منصوبے کے بارے میں جاری تعاون کا حصہ ہے۔ انہوں نے این ڈی بی ایس کے فیکلٹی ممبران کو اعصابی عوارض کے کلینیکل اور جینیاتی پہلوؤں کے بارے میں اپنے خیالات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے مختلف مالیکیولر طریقوں کا حوالہ دیا جو عوارض کی تشخیص میں استعمال ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ مالیکیولر تشخیص کے بعد ہر کیس کی رپورٹ بھیجیں گے تاکہ ان کے کام کو متاثرہ خاندان اور مریضوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ڈاکٹر سارہ ممتاز نے کہا کہ مغربی ممالک کے مقابلے پاکستان میں جینیاتی امراض کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے۔ صحت کے خطرے کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو کزن میرج سے بچنے کی تعلیم دی جائے، خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں خاندان کے کسی فرد میں پہلے سے ہی غیر متعدی بیماری موجود ہو۔

سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ جینیاتی عوارض کی مناسب تشخیص، علاج اور انتظام کے لیے مالیکیولر سطح پر ان عوارض کی نشوونما کے طریقہ کار کا مطالعہ کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جینیاتی اور فنکشنل سیل بائیولوجی کا امتزاج جینیاتی امراض اور ان کے پیتھالوجیکل عمل کو سمجھنے کے لیے خاص طور پر موثر طریقہ ہے۔

ڈی این اے، آر این اے اور پروٹین کے تعاملات کا تجزیہ جینیاتی تحقیق کا مرکز بن گیا ہے۔ ڈاکٹر سارہ ممتاز نے کہا کہ امکان ہے کہ اگلے 10 سالوں میں ان ترقیوں کی بنیاد پر انسانی بیماریوں کے علاج میں پیشرفت ہو گی۔ پاکستان کے اندر جینیاتی امراض اور خاص طور پر اعصابی جینیاتی عوارض پر کام کرنے والی لیبارٹریوں کی تعداد محدود ہے۔ اس لیے ان شعبوں میں تحقیق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پروفیسر ہولڈن نے نیورالوجیکل مسائل سے متاثرہ خاندانوں کو طبی تشخیص کے لیے مدعو کیا تھا اور ان سے خون کے نمونے اور جلد کی بایوپسی لی گئی۔ اگلے مرحلے میں مریضوں اور ان کے خاندانوں کے ڈی این اے اور آر این اے کا تجزیہ کیا جائے گا تاکہ ان خاندانوں میں پائی جانے والی بیماریوں کی مالیکیولر وجہ معلوم کی جا سکے۔

مصنف کے بارے میں