تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

Dr Ibrahim Mughal, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لو گ
ہم نے سونا سپردِ خاک کیا
جی ہاں، پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان دس اکتو بر برو ز اتوار اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ انہیں بجا طور پر ”محسن پاکستان“ کے نام سے پکارا جاتا ہے، انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے آگے بڑھانے کے لئے پوری لگن سے کام کیا۔ ٹھیک ہے کہ اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دیگر پاکستانی سائنسدانوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور سائنسدانوں کی اس ٹیم نے اپنی ان تھک محنت اور بے لوث جذبے سے قلیل مدت میں یورینیم افزود گی کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ ڈا کٹر قد یر کا نام پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی کے طور پر ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔ عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے پاکستان کو دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپریل 1936ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے، وہ اہل خانہ کے ہمراہ 1952ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ وہ اس وقت میٹرک کا امتحان پاس کر چکے تھے، انجینئرنگ کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی چلے گئے پھر انھوں نے انجینئرنگ کی ڈگری 1967ء میں نیدر لینڈز کی ایک یونیورسٹی سے حاصل کی، انہوں نے بیلجیم کی ایک یونیورسٹی سے میٹیلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بعد ازاں ایمسٹر ڈیم فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔
1974ء میں بھارت نے راجستھان کے علاقے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کو حیران کر دیااور جنوبی ایشیامیں طاقت کا توازن بگاڑ کر پاکستان کے لئے خطرات پیدا کر دئیے۔ بھارت 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا، اس کا ایٹمی طاقت بننا پاکستان کے لئے کھلا خطرہ تھا، انہی ایام میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام سب سے پہلے 1974-75ء میں سننے میں آیا جب انہوں نے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کر کے پاکستان میں ایٹم بم بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے عزم کو دیکھتے ہوئے انھیں کام کرنے کی
اجازت دے دی۔ انہوں نے اپنی ذات اور اپنے ادارے کو پاکستان کے عوام میں اس طرح مقبول کر دیا اور عوام کو سمجھا دیا کہ اس ادارے کا کام کرنا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں حکمران بدلتے رہے لیکن کسی کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ اس پروگرام کو ختم کر سکے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، جہاں ان کا شمار دنیا کے ممتاز سائنسدانوں میں ہوتا تھا، وہیں شعر و ادب سے بھی ان کی وابستگی رہی۔ اعلیٰ پائے کے شاعر اور نثر نگار بھی تھے، ان کی شاعری اور نثر کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ فلاحی اور رفاہی کاموں میں دن رات مصروف رہتے تھے۔ ان کے بے شمار رفاحی کاموں میں ان کا سب سے بڑا منصوبہ لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ہے، جہاں غریب، نادار اور مستحق لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ادویات بھی مفت ہی فراہم کی جاتی ہیں، ہسپتال میں سٹیٹ آف دی آرٹ ایک ڈائی لیسز سنٹر بھی ہے، جہاں غریب غرباء کے ٹیسٹ اور ڈائی لیسز کے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی دی جاتی ہیں۔ ملک کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے اس قومی ہیرو کے ساتھ ہم نے اس کے شایان شان سلوک نہیں کیا۔ ان کی شخصیت کئی حوالوں سے تنازعات کا شکار رہی، پہلے ان پر ہالینڈ سے ایٹمی معلومات چوری کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جس سے وہ باعزت بری ہوئے تو 2004ء میں سابق جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں اس دفعہ پھر حساس معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کی چارج شیٹ لگا دی گئی، انھیں اپنے گھر میں نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلوک سے وہ آزردہ رہے اور انھیں اس سے کافی دکھ پہنچا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک شر یف النفس،ایما ندار، محبِ وطن اور ایسے ایٹمی سا ئنسدان، جس کا دنیا میں کو ئی ثانی نہ ہو، کو یو ں اذ یت پہنچنا ہم سب پا کستا نیو ں کے لئے رنج کی با ت ہے۔
تا ہم اچھی با ت یہ ہے کہ جہا ں حکو مت کی اعلیٰ شخصیا ت نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی ریاست بنانے میں ان کا مرکزی کردار رہا ہے،وہیں اپوزیشن کے سب ہی سیا ست دانو ں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار کی وفات قومی صدمہ ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت پاکستان کو اپنے پڑوس میں موجود بڑی ایٹمی قوت سے تحفظ حاصل ہوا، ان کی خدمات دفاع استحکام کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔البتہ یہ کہنا کہ کیو ں جنرل مشر ف کے دور ِ حکو مت میں انہیں نظر بند کیا گیا، ایک ایسا سوال ہے جس کا تسلی بخش جوا ب تا حال کسی کے پاس نہیں۔ لگتا ہے کہ میڈ یا پہ اس پہ منا ظر ے بہت لمبے عر صے تک جا ری رہیں گے۔ مگر ایک سوا ل جس کا جو اب ہم سب پہ واجب ہے، وہ یہ کہ آخر وہ کیا حالا ت تھے، اور وہ کو نسے عو امل تھے جنہو ں نے ہم سب کے اور ہما ری آ ئند ہ آ نے والی نسلو ں کے محسن ڈا کٹر قد یر کو یہ کہنے پہ مجبور کیا کہ:
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیا ت قدیر
ستم ظر یف مگر کو فیو ں میں گذری ہے
جی ہا ں، یہ شعر ہمہ گیر عظیم شخصیت ڈا کٹر عبد القدیر ہی کا ہے۔ کیا ہم سمجھ لیں کہ ہم واقعی ایک احسا ن فرامو ش قوم ہیں؟لیکن نہیں، ڈاکٹر قدیر نہیں، ہم ایک احسا ن فرا مو ش قوم نہیں، البتہ ایک مجبو ر قوم ضرور ہیں۔