2023 کی میراتھن ریس…

 2023 کی میراتھن ریس…

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ساڑھے تین سال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن روز اول سے ہی اپوزیشن نے انہیں چین نہ لینے دیا اور عوام کے ذہنوں میں اپنی حاضری مسلسل لگاتی رہی۔ اپوزیشن حکومت کے خلاف بیانیے کی میرا تھن ریس کا اختتام 2023 کے انتخابات تک کرنا چاہتی ہے تا کہ اس وقت اسے کیش کروایا جا سکے اس حوالے سے اسے طویل ترین انتخابی مہم کہنا بھی بے جا نہ ہو گا۔ 
 دوسری طرف حکومت بھی احتساب کا بیانیہ میں الجھی رہی لیکن اس ضمن میں اسے کوئی قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی اور تمام ملزمان نظام  کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس جال سے نکلتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ  30 سال تک حکومتی امور چلانے کی ماہر موجودہ اپوزیشن نے سسٹم میں موجود اپنے گورکھوں کے ذریعے حکومت کی ایک نہ چلنے دی اور ہر بار پتلی گلی سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی جبکہ حکومت منہ دیکھتی رہ گئی۔ احتساب کی اس رٹ کو سب سے بڑی مات اس وقت ہوئی جب میاں نواز شریف کو حکومت نے عدالتی حکم کی آڑ میں نہ چاہتے ہوئے بھی علاج کے  لیے 4 ماہ کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ اس پر حکومت کی روایتی سستی یا نااہلی کا بھی قصور ہے کہ وہ نواز شریف کی واپسی کے لیے اس طرح آواز نہیں اٹھا سکی جس طرح کہ اپوزیشن ان کی بے گناہی کا دن رات رونا روتی رہی۔ اس حوالے سے حکومتی صفوں میں فواد چوہدری کے علاوہ کوئی قابل ذکر آواز نہ ابھر سکی۔
یقیناً نواز شریف جس بیماری کے علاج کے لیے لندن گئے تھے اس کے تو آثار بھی معدوم ہو گئے اور کل ان کی لندن میں سہیل وڑایچ کے ساتھ آخری تصویر میں پہلے سے بھی ہشاش بشاش نظر آئے۔ اللہ پاک انہیں صحت کاملہ دے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ لندن جا کر علاج کی بجائے نواز شریف نے حکومت کے خلاف مورچہ سنبھال لیا اور پی ڈی ایم کی صورت میں حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ اس وقت سے آج تک حکومت نواز شریف کو بیرون ملک اجازت دینے کے زخم کو چاٹ رہی ہے لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
دوسری طرف بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی بھی خرگوشوں کی ریس میں کچھوے کی چال چلتے ہوے اپنی شناخت کروانے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ اس کی ہمت اس وقت بندھی جب لاہور کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں اس کے ووٹ 6 گنا بڑھ گئے پھر اسے مزید تقویت تب ملی جب وہ خانیوال کے ضمنی انتخابات میں بھی ان کے ووٹ بڑھ گئے۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی دو ضمنی انتخابات میں ووٹوں کی برتری پر اپنی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی ترتیب دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ صرف آصف زرداری کی طرح کھوکھلی بڑھکیں لگانے یا پنجاب میں مسلم لیگ ن پر تنقید سے ان کا ووٹ بنک نہیں جاگے گا اور اسے جگانے میں اتنی ہی جدوجہد درکار ہو گی جتنی محنت موجودہ قیادت نے بھٹو کی پارٹی کو لمبی نیند سلانے میں کی۔ جس بھی جیالے سے پوچھو وہ آصف زرداری کی بے نظیر شہید کے مبینہ قاتلوں سے مفاہمت کرنے اور انہیں ڈپٹی وزیر اعظم تک کا عہدہ دینے سے لے کر بے نظیر شہید کو سزا دینے والے اس وقت  کے جج ملک قیوم کو پیپلز پارٹی میں اٹارنی جنرل مقرر کرنے تک جیسے ان گنت فیصلوں سے سخت نالاں ہے۔ پیپلز پارٹی کی بربادی چند ماہ وسال کا قصہ نہیں بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی لمبی داستان ہے اور اس پر سندھ میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی نے بھی مہر ثبت کر دی اور اب اس کی واپسی معجزہ ہی ہو گا۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ پیپلز پارٹی کو بڑی محنت سے سندھ کے دیہی حلقوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اب چاہے ٹریکٹر مارچ کریں یا ٹرین مارچ اس مردے میں تب تک جان نہیں پڑے گی جب تک اس کے احتجاجی کارواں میں عوام حصہ نہیں لیتے۔ جہاں تک جناب آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست کا تعلق ہے تو جب بھی پیپلز پارٹی کا جیالا مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق سے تعلقات کی تاریخ میں جائے گا تو ان جماعتوں کی طرف سے لگائے گئے کچوکوں کی بنا پر مفاہمت کی بجاے اس کا رحجان سیاسی مخالفت سے نفرت کی جانب گامزن ہو گا۔ جناب زرداری کی مفاہمت کا من و سلوی ان کے ارد گرد کے مفاد پرست لوگ تو ہضم کر رہے ہیں لیکن جیالا اسے ماننے کو تیار نہیں۔
مسلم لیگ ن اپنی پیدائش سے لے کر آج تک ہمیشہ سے اپنے مفاد کے لیے دائو ماری کی سیاست کو ترجیح دیتی رہی ہے۔ ملکی ادارے بھی ان کے اس انداز سیات میں ان کے سہولت کار بنتے رہے۔ بیچ بیچ میں مسلم لیگ ن پر جب وقت آیا تو انقلابی  بننے کی کوشش کرتی رہی۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا لیکن جب گھٹی  ہی دائو ماری کی دی گئی ہو تو انقلابی سیاست وقتی تو ہو سکتی ہے دائمی نہیں۔ نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے میں یار لوگ چی گویرا یا نیلسن مینڈیلا کو تلاش کر رہے تھے لیکن ان کو دھچکا اس وقت لگا جب وہ ووٹ کے عزت دو کے عزت دار بیانیے سے ہٹ کر اپنا قبلہ ڈیل کی طرف موڑ لیا۔ یہاں بھی تا دم تحریر مسلم لیگ ن کے لیے وہی کیفیت رہی۔۔ 
 نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی بھی کرکٹ کی طرح ہے جس کے بارے میں آخری گیند تک کوئی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ نجانے کب ماضی کی طرح نواز شریف پھر سے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بن جائیں۔ چاہے شیخ رشید کہتے رہیں کہ چاروں شریفوں کے سر سے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اٹھ چکا ہے لیکن اور اس حوالے سے تاریخ کا سبق کچھ اور ہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان بھی پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد خود کو نواز شریف کے پائے کا سیاست دان سمجھنے لگے ہیں۔ حالیہ ’’نجی‘‘ محفلوں میں انہوں نے خود کو نواز شریف کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو ’’شریف‘‘ قبول نہیں ہیں تو وہ ’’شریفوں‘‘ کے متبادل ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ بادشاہ تخت اور تاج میں  شراکت برداشت نہیں کرتا۔ سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ 
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں