تماشا خود کب تماشا دیکھ سکتا ہے؟

تماشا خود کب تماشا دیکھ سکتا ہے؟

ایک بادشاہ نے ایک صوفی بزرگ سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے۔ انہوں نے پوچھا کس قسم کی نصیحت۔ بادشاہ کہنے لگا، جس میں میری بہتری ہو!
صوفی بزرگ نے کہا کہ ’’دوپہر کے وقت خوب اور ضرور سویا کرو‘‘۔ بادشاہ حیران ہوا کہ وہ کیوں؟ بزرگ نے کہا تم ظلم کم کر سکو تاکہ تمہاری دنیا اور آخرت مزید خراب نہ ہو۔
ہمیں پے در پے جو حکمران ملے وہ رات کو تو پتہ نہیں سوتے تھے کہ نہیں مگر دوپہر کو سونا لازم ہونا چاہئے تھا تاکہ عوام ظلم سے قدرے بچ جاتے مگر موجودہ حکمران ٹولہ تو شاید سوتا ہی نہیں صرف ظلم کی طرف رواں ہے۔
وطن عزیز کے سیاسی، سماجی، معاشرتی، عسکری، معاشی، اخلاقی، معروضاتی، پارلیمانی، آئینی، قومی، انفرادی، اجتماعی، داخلی، خارجی، ذاتی اور بین الاقوامی حالات پر اگر کسی حوالہ سے بھی نظر ڈالی جائے، 1947 سے ارتقائی نہیں بلکہ انحطاط کے حالات اور اسباب پر غور کیا جائے تو نتیجہ منافقت، جھوٹ، نفرت، ذاتی مفاد، حرص و ہوس اور کثرت اقتدار و زر کے علاوہ قانون کی عدم حکمرانی اور ڈھٹائی ہی نظر آئے گی۔ ایک تماشا ہے، نوٹنکی ہے، سرکس اور میگا تھیٹر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہر شعبہ ادارہ، سٹیک ہولڈر تماشا دکھائی دینے لگا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تماشا خود کو کبھی نہیں دیکھ پاتا۔
قائد اعظم کے بیمار پڑنے سے نوازشریف کے بیمار پڑنے تک کے حالات اور پھر موجودہ دور 2018 میں شدت سے شروع ہونے والا ہنگامہ! اللہ پناہ اس کی ہر روز ہر پل ایک نئی جہت سامنے آئی ہے۔ 2014 کا دھرنا، 2017 کا دھرنا اور حالیہ دھرنا، سیاسی و مذہبی تحاریک کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پاک بھارت تین جنگوں میں اتنی شہادتیں نہیں ہوئیں جتنی داخلی خلفشار ، انتشار اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہو گئیں۔
آج کل جو حالات ہیں وہ کون سا الزام، گالی، دشنام طرازی ہے جو موجودہ حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں (سوائے فوجی حکمرانوں) کو نہیں دی اور اب وہی رائے عوام کی پانچ سو گنا ضربیں کھا کر موجودہ حکمران ٹولے کا مقدر بنیں۔ کہنے کو جمہوریت ہے مگر ہر شخص کی جیب میں خوف ڈال دیا گیا ہے۔ خوف بھی ایسا کہ ساتھ چلنے، بیٹھنے اور معاملات کرنے والے پر بھروسہ کرتے ہوئے بھی لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔
جی ڈی اے، ایم کیو ایم، ق لیگ وغیرہ جو حکمران اتحاد میں شامل ہیں، ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیںکابینہ کے اراکین ایک دوسرے سے گھبرائے ہوئے ہیں، خوفزدہ ہیں، بھروسے کا فقدان ہے۔ خوف کا راج ہے۔ اس حد تک کہ مجھے ایک لطیفہ یاد ہے۔ ایک اہل میراث کا غریب آدمی بے روزگار، لاغر، پریشان، مقروض، بُرا حال اور بُرے دن ایک دن اپنے گھر میں تھکا ہارا بھوکے پیٹ ان گنت سوچوں، تدبیروں، خیالوں میں گم بلکہ کھویا ہوا پرانے بیڈ پر تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہے۔ بجلی کے بل نہیں دیئے، بجلی کٹی ہے، گیس کا بل نہیں دیا گیس کٹی ہے۔ بچے کسی کے گھر ایک وقت کے کھانے کا پہر گزارنے گئے ہوئے ہیں۔ اس کی زبان سے اچانک بے اختیار نکلتا ہے کہ اس سے بہتر ہے مجھے موت ہی آ جائے۔ اگلے ہی لمحے اسے کوئی آہٹ سنائی دیتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ شاید اس کی یہ بات پوری ہونے لگی ہے، شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔ وہ نا معلوم سائے سے کہتا ہے ’’یار اسیں اپنے گھر دے اندر کلیاں بہہ کے گل وی نئیں کر سکدے؟‘‘ (یار کیا ہم اپنے گھر میں اکیلے بیٹھ کر بات بھی نہیں کر سکتے؟) یعنی ادھر موت مانگی اور ادھر مرنے کا احساس ہوا، تو چلاآیا جان لینے؟۔
آج کل حکمران اتحاد میں شامل سرخیل خوفزدہ ہیں، ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں اپنے گھر میں اکیلے بیٹھ کر بھی بات نہیں کر سکتے کہ کہیں کسی سٹیک ہولڈر کو پتہ نہ چل جائے۔ سیاسی جماعتیں، جماعتوں کے اندرنام نہاد رہنما، بیورو کریسی کے کرتے دھرتے، محکمہ جات کے اہلکاران، عدلیہ تک کے ذمہ داران آپس میں ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں ایسے کہ خوف سے آکسیجن کم پڑ جائے اور خوف ختم نہ ہو۔ اس ماحول میں ضروریات زندگی کی طلب میں باہر نکلیں تو 90 فیصد لوگوں کا کاروبار نہیں رہا ہے۔ ملازمت کرنے والے کی آمدنی ضرورتوں سے 10 گنا کم ہے۔ قحط یہی نہیں ہوتا کہ بارشیں نہ ہوں، زمین صحرا اور ریگستان بن جائے حقیقی قحط تو یہ ہے کہ اللہ کی نعمتیں موجود ہوں مگر انسانوں کی پہنچ سے باہر ہوں۔ ادارے موجود ہوں مگر ریلیف کا فقدان ہو، اس وقت کاروبار صرف دو ہی چل رہے ہیں، ایک حکومت کے گلشن کا کاروبار اور دوسرا کرپشن کا کاروبار۔
کیا آج ہر شعبہ، محکمہ، ادارہ تماشا نہیں بنا ہوا اور ایسا کہ جو خود کو نہ دیکھ پائے۔
تماشے سے یاد آیا اگلے دن شہباز گل کا ٹوئٹ بلکہ ویڈیو دیکھ کر بہت دکھ ہوا جس میں ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ میں صحیح العقیدہ مسلمان ہوں، میرے مذہب پر باتیں ہوئی ہیں مجھے لوگ مذہب کے حوالے سے ہدف بنا رہے ہیں۔ میں نے شہبازگل کی ٹوئٹر پر یہ ویڈیو دیکھ کر ریمارکس بھی دیئے کہ اب آپ کے مذہب اور عقیدے پر اعتبار نہ کرنا مناسب نہیں۔ کیونکہ انہوں نے آقا کریمﷺ کو آخری نبی ماننے کا اقرار کیا۔ یہ اقرار ہی تو علامت ہے۔ دل کے معاملات تو اللہ جانتا ہے البتہ یہ ہے کہ اگر اپنی ہی گفتار و اعمال سے بھی مسلمانوں جیسا طرز عمل رکھتے تو شاید کسی کو جرأت نہ ہوتی۔ بہرحال سیاسی حوالہ سے بھی پریشان ہیں کہ ہم اصلاحات چاہتے ہیں مگر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے نوازشریف بیٹھے ہوئے ہیں۔ گویا انہیں ہر جگہ نوازشریف نظر آتے ہیں۔ ’’اخلاق یافتہ آدمی ہیں‘‘ کبھی بلاول بھٹو کے ماسک پر جگتیں مارتے ہیں، کبھی نوازشریف نظر آتے ہیں۔ عمران خان کو شہبازشریف فوبیا ہو گیا، شہبازگل کو نوازشریف فوبیا ہو گیا، اسد عمر کو پی ڈی ایم فوبیا ہو گیا، مراد سعید کو بلاول بھٹو فوبیا، شیخ رشید کو گیٹ نمبر 4 کے بند ہونے کا فوبیا ہو گیا۔ حکمران ٹولہ کسی نہ کسی فوبیا میں مبتلا ہے۔ وزیر اعظم کبھی ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے انداز رہبری، کبھی ہٹلر سے متاثر کبھی چائنہ، کبھی ترکی، کبھی سنگاپور، کبھی ای وی ایم مشینوں میں مبتلا گویا ایک نہیں کئی فوبیاز لاحق ہو گئے، مگر دماغ پر سابقہ حکمران، میاں نوازشریف، زرداری، بلاول بھٹو، شہبازشریف اور ایک موقر ادارہ سوار ہے۔ کبھی سپریم کورٹ کبھی الیکشن کمیشن کبھی میڈیا پرسنز نہ جانے کتنے لوگ کتنے افراد ہیں جو حکمران ٹولے کو تتر بتر کیے دے رہے ہیں۔ ایسے خوفزدہ، بے اعتبار، عدم بھروسہ فوبیا اور خوف میں مبتلا حکمران، ادارے کیا کام کریں گے اور اگر یہ عوام کے کام کے نہیں ہیں تو پھر عوام بے چارے بھی تماشا بن چکے ہیں۔ بہرحال بلاول بھٹو کی تجویز پر سیاسی لائحہ عمل اور شہبازشریف کی حکمت عملی نے حکمرانوں کا انجام اور عوام کی نجات قریب کر دی ہے۔ اگر میاں صاحب نے کوئی غلط مشورہ مان لیا تو پھر آئندہ موجودہ حکومت کی نااہلیت کے نتیجہ میں جنم لینے والے ظلم کے میاں نوازشریف ذمہ دار ہوں گے کیوں کہ بلاول بھٹو اور پی ڈی ایم کے ساتھ مفاد عامہ کی حفاظت کرنے والوں نے ان گنت تماشوں کو بند کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے ۔ مگر تماشا خود کہاں تماشا دیکھ سکتا ہے؟