و شواہندو پریشد کی بھارتی مسلمانوں کو دھمکی

Riaz ch, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

وشوا ہندو پریشدکے صدر رویندر نارائن سنگھ نے ناگپور میں وی ایچ پی کی ایک نئی عمارت جو آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے، کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعدایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک سے ’’کینسر‘‘ (مسلمان)کوباہر نکالنا چاہتے تھے‘‘70 سال بعد یہ لاعلاج ہو چکا ہے جس نے ہمارے پورے جسم کو اپنی لپیٹ  میں لے لیا ہے‘ اسے ختم کرنے  اب کیلئے کیموتھراپی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ مسلمان ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو اپنی تہذیب کو ترک کرکے ہندو بن کر رہنا ہوگا۔مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی احتجاج کی صورت میں انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیاجائیگا۔جب ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تو ہم نے پاکستان کے نام پر مسلمانوں کیلئے الگ زمین دی تھی۔ ہم نے انہیں ہندو روایت کے مطابق بڑے احترام کے ساتھ قبول کیا۔
ریاست راجستھان کے شہر راج کوٹ میں ہندو وشوا پریشد اور بجرنگ دل کے انتہا پسندوں نے مکان خریدنے والے ایک مسلمان تاجر کے گھر کے سامنے زبردست مخالفانہ مظاہرہ کیااور مطالبہ کیا کہ مسلمان ہندوبستیوں سے نکل جائیں۔مسلمان تاجر کے گھر کے سامنے مظاہرے میں وشوا ہندو پریشد کے سربراہ نے بجرنگ دَل کے مظاہرین کو حکم دیا کہ گھر کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیں۔وی ایچ پی کے صدر Togadia Pravinنے گھر خریدنے والے مسلمان کو حکم دیا کہ 48 گھنٹوں میں گھر خالی کردے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کے دفتر پر پتھروں ،ٹائراور ٹماٹروں سے حملہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سے پہلے بھی یہ کرچکے ہیں جس میں مسلمانوں کو مکان اور پیسے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
گزشتہ برس بھارتی انتہا پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونیوالے رام مندر کیلئے باضابطہ طور پر چندہ وصولی مہم شروع کر دی تھی۔ اس معاملے میں شروعات بھارت کے صدر رام ناتھ کووند سے کی گئی جنھوں نے 5 لاکھ روپے اس کی تعمیر کیلئے چندے کے طور پر دیئے۔کئی ہندو تنظیمیں یہ مہم پہلے ہی شروع کر چکی تھی مگر شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر ٹرسٹ اور وی ایچ پی کی جانب سے بھارت کے 13 کروڑ خاندانوں سے چندہ وصول کیا گیا۔ اترپردیش ، مدھیہ پردیش ، کیرالہ کے کئی مسلمانوں اکثریتی علاقوں میں بھی دھونس دھمکی کی بنیاد پر رام مندر کیلئے چندہ وصول کیاگیا۔ چندہ دینے سے انکار کرنے پر یو پی کے بریلی میں مسلمانوں کے 80 گھروں کو آگ لگا دی گئی۔
جنوبی ایشیا میں شہری آزادیوں پر نظر رکھنے والی ساؤتھ ایشیا سٹیٹ آف مینارٹیز رپورٹ کی 
سالانہ رپورٹ میں بھارت کی وفاقی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی شہریوں کے لیے قومی رجسٹر ’مسلمانوں کو ممکنہ طور پر سٹیٹ لیس‘ بنا سکتا ہے۔ بھارت میں پیش کیے جانے والے متنازع شہریت قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔ اس قانون میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن کے لیے بھارتی شہریت اختیار کرنے کا راستہ رکھا گیا تھا لیکن مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بھارت کی سول سوسائٹی کے ارکان، انسانی حقوق کے وکلا، سماجی کارکن، مظاہرین، دانشور، صحافی اور لبرل طبقہ سب ہی حکومت کی اس اکثریت پسندی کی سوچ کے خلاف بول چکے ہیں اور رپورٹ کے مطابق یہ تمام افراد بڑھتے ہوئے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو ’ریاستی اداروں اور ان کے اتحادی نظریاتی گروہوں کی جانب سے دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘ 349 صفحات کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’فارن کنٹریبیوشن ایکٹ جو بیرونی عطیات کی ریگولیشن کرتا ہے کو ترقی پسند اقلیتی این جی اوز کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں ’ٹیلی ویژن پر سنسرشپ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں اور حکومت پر تنقید کرنے والے چینلز کو بند کیا جا چکا ہے۔
رپورٹ میں باقی جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں حکومتوں کی جانب سے ’آزادی اظہار کے آئینی حقوق، تعلق اور اجتماع کے حقوق کو قانون کا استعمال کر کے ان حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، نیپال، پاکستان اور سری لنکا شامل ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں کی صورت حال کے حوالے سے انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر نے کہا کہ یوں تو مودی حکومت اور ہندوتوا کی طاقتوں نے جو خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے اس سے تمام ہی اقلیتی فرقے خوف زدہ ہیں لیکن مسلمانوں کی صورت حال کچھ زیادہ خراب ہے۔
حکومت بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند کوششیں کررہی ہے۔ این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین اسی لیے لائے گئے ہیں۔ اترپردیش میں انسداد تبدیلی مذہب کا قانون اسی سلسلے کا حصہ ہے اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔حکومت نے مسلمانوں کے بارے میں تو یہ طے کردیا ہے کہ وہ ملک کے اندر ملک کے دشمن ہیں اور انہیں دوسرے درجے کی شہریت تسلیم کرنی ہوگی ورنہ انہیں حکومت اور حکومت کے حامیوں کی طرف سے مزید مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔