تینوں لوے مولا…

تینوں لوے مولا…

دوستو،ہم نے اکثر نوٹ کیا ہے ، جس کالم میں ہم اوٹ پٹانگ باتیں زیادہ کرتے ہیں، وہی کالم احباب پسند کرتے ہیں۔۔ جب ہم تھوڑا سنجیدہ ہونے لگتے ہیں اور کسی سنجیدہ مسئلے کی جانب مہذب انداز میں نشاندہی کرتے ہیں، احباب بور ہوجاتے ہیں۔۔ اوٹ پٹانگ کالموں کا فیڈبیک زیادہ اچھا ملتا ہے۔۔ چنانچہ آج کی تحریر بھرپور اوٹ پٹانگ باتوں سے لبریز ہے۔۔ اگر کسی کو کچھ برا لگے تو ہماری طرف سے دو روٹیاں زیادہ کھالے۔۔ہماری صحت پر کیا فرق پڑے گا؟؟ تو چلیں شروع کرتے ہیں اوٹ پٹانگ باتیں۔۔
ہم بس میں سوار ہو کر کراچی سے حیدرآباد جا رہے تھے۔۔ سہراب گوٹھ سے ایک بندے نے سوار ہونے کے ساتھ ہی باآواز بلند بولنا شروع کیا۔۔میں کوئی مانگنے والا نہیں ہوں، میرے بھائیو بس اللہ یہ وقت کسی پر نہ لائے۔۔ابھی اس کااتناہی کہنا تھا کہ ہمارا ہنسی کا فوارہ نکل گیا۔۔ساری سواریاں بھی ہمارے ہنسنے کی وجہ کو سمجھتے ہوئے ہنس پڑیں۔۔وہ اعلان کرنے والا اعلان درمیان میں چھوڑ کر ہی واپس مڑ گیا۔مڑنے سے پہلے اس کے آخری الفاظ جو مجھے سنائی دئیے وہ کچھ یوں تھے۔۔جا اوئے میاں۔۔ (بیپ بیپ بیپ)۔۔ تینو لوے مولا۔۔ ساڈی روزی تے وی لت مار دتی اے۔۔کہتے ہیں ہر عید پر پردیسی اپنے وطن کو بہت مس کرتے ہیں۔۔ اس بار بھی عید آئی پردیسیوں نے اپنے وطن کو بہت یاد کیا۔۔باباجی بھی کافی عرصے پردیسی رہے۔وہ ایک خلیجی ملک میں ایک عشرے سے زائد نوکری کرتے رہے۔باباجی اپنی کتاب۔۔ وطن دورہے جانا ضرورہے۔۔ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔جب میں نے باہر جانے کی پکی تیاری کر لی تو روانگی والے دن میرے والد نے بہت ساری دعاؤں اور نصیحتوں کے ساتھ مجھے الوداع کہا۔پردیس اور پردیس میں کام کاج اور کمائی میری توقع کے مطابق نہ تھی۔ مجھے مشکلات سے لڑتے لڑتے دو سال بیت گئے۔دو سال کے بعد وطن میں ایک دن میری اماں اور والد کہیں گئے ہوئے تھے کہ گھر میں چور آ گیا۔ ہمارے گھر سے اسے کیا ملنا تھا، ہمارا ایک گدھا بندھا کھڑا  تھا چور وہی کھول کر لے گیا۔دو دن کے بعد چور ہمارے گدھے کو لے کر بازار باربرداری کیلئے گیا۔پھل اور سبزیوں سے لادا۔ رش میں چور کی توجہ کہیں اور ہوئی تو گدھا چل پڑا۔ ہمارے گھر کا راستہ تو گدھا جانتا ہی تھا اس لئے اس نے شام کو دروازے پر آ کر منہ مارنا شروع کر دیا۔ میرے والد نے شور سن کر دروازہ کھولا تو سامنے اپنے گمشدہ گدھے کو پھلوں اور سبزیوں سے لدا پھندا کھڑا دیکھ کر بہت خوش ہوا۔میری اماں کو بلا کر دکھاتے ہوئے کہا۔۔ دیکھ، یہ میرا گدھا دو دن غائب رہا ہے اور بدلے میں پورا بازارلے کر آیا ہے۔ اور تیرے بیٹے کو گئے دو سال ہو گئے ہیں اور آج تک مونگ پھلی کا ایک دانہ بھی نہیں بھیج سکا۔۔باباجی اسی کتاب میں ایک اور دلچسپ واقعہ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ۔۔سعودی عرب کی ایک مسجد میں دو پاکستانی اور کچھ عربی نماز ادا کررہے تھے ایک عربی کی نماز میں پاکستانیوں کو کوئی غلطی محسوس ہوئی تو ان دونوں نے اس عربی کو اس غلطی کی نشاندہی کردی عربی خاموش رہا اور نماز کے بعد مسجد سے نکل گیا۔ پاکستانی اپنی نماز پوری کرنے کے بعد جب مسجد سے نکلے تو وہ عربی باہر ان کا انتظار کر رہا تھا، اس نے ان کو روک کر ان کی غلطی کی نشاندہی یاد کرائی اور کہا کہ۔۔ آپ لوگوں نے مجھے یہ کہا تھا ۔۔ دونوں پاکستانیوں نے کہا، ہاں کہا تھا ۔۔تو وہ عربی ان دونوں کو پولیس سٹیشن لے گیا اور پولیس والے کو سارا واقعہ بتا دیا۔۔پولیس والے نے پاکستانیوں سے اسلامیات پہ یونیورسٹی کی ڈگری مانگی جو ان دونوں کے پاس نہیں تھی۔ پولیس والے نے پھر ان سے وہ سرٹیفکیٹ مانگا جو کسی ادارے نے ان دونوں کو فتوے دینے کے لئے جاری کیا تھا۔۔جب ان دونوں پاکستانیوں سے یہ دونوں چیزیں نہ مل سکیں تو ان دونوں کو ایک ہفتہ کے لئے غیر ضروری دخل اندازی کے جرم میں جیل بند کردیا گیا۔۔اب وہ دونوں پاکستانی صرف اور صرف اپنے کام سے رکھتے ہیں۔۔
باباجی کی آپ بیتی ۔۔ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں۔۔میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ۔۔میں نے برابر کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی خوبصورت خاتون سے پوچھا۔۔ کیا میں اس پرفیوم کا نام جان سکتا ہوں جو آپ نے لگایا ہوا ہے۔۔؟میں اپنی بیوی کو تحفے میں دینا چاہتا ہوں ۔۔خاتون نے جواباً کہا۔۔یہ آپ اپنی بیوی کو مت دینا ورنہ کسی بھی ذلیل آدمی کو اس سے بات کرنے کا بہانا مل جائے گا۔۔باباجی اسی کتاب میں آگے چل کر کسی اور جگہ اپنا ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔۔ایک بار ہم میاں بیوی ساتھ بیٹھے زندگی اور موت کی بابت باتیں کر رہے تھے۔۔میں نے کہا۔۔بیگم میں ایک زندہ لاش کی حالت میں رہنا نہیں چاہوں گا۔ اگر کبھی ایسا بیمار پڑوں کہ بے ہوش و حواس ہو جاؤں اور محض آکسیجن ماسک اور ٹیوبوں پر میری زندگی منحصر ہوکر رہ جائے تو براہ کرم ان ٹیوبوں، ٹونٹنیوں اور تاروں کو ہٹا کر مجھے فطری حالت میں چھوڑ ددینا ۔۔تاکہ ان کی اذیت سے آزاد ہوکر طبعی موت مر سکوں۔۔بیگم صاحبہ تھوڑی دیر تک مجھے بغور دیکھتی رہیں۔ پھر بڑے اطمینان سے اٹھیں اور ٹی۔وی کیبل کی تار ہٹادی، کمپیوٹر، آئی پیڈ، موڈیم اور زی باکس کو ڈسکنیکٹ کردیا۔موبائل آف کردیا۔ انٹرنیٹ وائی فائی بھی بند کردیا۔یوں مجھے تو گویا منٹوں میں جیتے جی مار ڈالا۔۔سبق: بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔۔خاتونِ خانہ کی سوچ کا رُخ کسی طرف بھی ہو سکتا ہے۔۔
باباجی کی ازدواجی زندگی یوں تو کئی عشروں پر محیط ہے لیکن زوجین میں اکثر ہلکی پھلکی ’’نوک جوک‘‘ چلتی رہتی ہے۔۔باباجی اپنی زوجہ ماجدہ کے ساتھ ہونے والی دلچسپ ’’توتومیں میں‘‘ اکثر ہمیں سناتے رہتے ہیں۔۔ایک دن باباجی کی زوجہ ماجدہ نے کہا۔۔میں نے گدھوں پر ریسرچ کی ہے، وہ اپنی گدھی کے سوا کسی دوسری گدھی کو دیکھتا تک نہیں!باباجی نے برجستہ کہا۔۔ اسی لئے تو اُسے گدھا کہتے ہیں۔۔ بیگم صاحبہ کہنے لگی۔۔ میری اسکِن بہت Oily ہو گئی ہے کیا لگاؤں؟۔۔باباجی نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد مشورہ دیا۔۔ ایسا کرو Vim بار لگاؤ ساری چکنائی اُتار دے گا۔۔ایک دن زوجہ ماجدہ نے چیختے ہوئے باباجی سے پوچھ ہی لیا۔۔ یہ الارم کون ہے جس کی روز چھ بجے کال آتی ہے؟باباجی نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا۔۔ ربا ہن تے چک ای لے۔۔۔ بیگم صاحبہ نے باباجی سے سوال پوچھا تاکہ علم میں اضافہ ہوسکے، انہوں نے پوچھا کہ۔۔بیوی کو فارسی میں کیا کہتے ہیں؟باباجی بولے۔۔ بیوی کو آپ فارسی تو کیا کسی بھی زبان میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔باباجی بستر پر لیٹے موبائل میں ساؤتھ کی کوئی ہندی ڈب مووی دیکھ رہے تھے۔۔بیگم بولیں۔۔ اٹھ جائیں میں روٹی بنا رہی ہوں،باباجی نے بلند آواز میں جواب دیا۔۔ تو میں کونسا توے پر لیٹا ہوں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کراچی کے مسائل کا حل ’’نالوں‘‘ کی صفائی میں نہیں ’’نااہلوں‘‘ کی صفائی میں ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں