جھگڑا کیوں ؟

جھگڑا کیوں ؟

جب ہم یہ سطور رقم کر رہے ہیں سیاست کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا مگر فریقین اپنی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں اندر سے دونوں سہمے ہوئے ہیں۔حکومت کے اتحادی موجودہ صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں انہیں جو کوئی موزوں پیکج دے گا وہ اسی طرف جھک جائیں گے گویاایک منڈی لگی ہوئی ہے بولیاں دینے والے بڑھ چڑھ کر بولی دے رہے ہیں مگر سودا فروخت کرنے والے ابھی تک کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں یہ لوگ خود کو جمہوریت پسند بھی کہتے ہیں عوامی رائے کا احترام ان کے نزدیک لازمی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ یہ مرضی اپنی ہی کرتے ہیں جیسا کہ ان دنوں ہو رہا ہے۔ جب کبھی کوئی طالع آزما آتا ہے تو اس کے ساتھ بھی چمٹ جاتے ہیں کہ انہیں عوام کا بہت خیال ہوتا ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے جو انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو کروڑوں خرچ کرتی ہے اور جب اقتدار میں آتی ہے تو اپنا نقصان پورا کرنے میں لگ جاتی ہے۔ اصول اخلاق اور قواعد سب کچھ پس پشت ڈال دیتی ہے چوہتر برس سے یہی کچھ ہو رہا ہے کوئی آنے کے لیے تیار اور کوئی جانے کے لیے۔ یہ لوگ عالمی مالیاتی اداروں سے عوام کے نام پر قرضے لیتے ہیں جو کبھی بھی سو فیصد ان پر خرچ نہیں ہوتے ان میں سے زیادہ تر حکومتی ارکان بیورو کریسی اور ٹھیکیداروں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں انصاف نام کی کوئی چڑیا نہیں۔ کوئی سرکاری و غیر سرکاری اہلکار بات نہیں سنتا بد عنوانی کا زہر رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے مگر اس طرف کسی بھی سٹیک ہولڈر کی توجہ نہیں سب اپنے اختیارات اور مفادات کے لئے سرگرداں ہیں۔ عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور انہیں ان کا ہمدرد و غم گسار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر عوام کو معلوم ہے کہ انہیں ان سے کوئی سروکار نہیں ان کے دکھوں اور مسائل سے ذرا بھی دلچسپی نہیں انہیں اقتدار کے مزے لوٹنا ہیں اور ایسا کرکے غائب ہو جانا ہے ان کے مغربی ملکوں میں بڑے بڑے کاروبار اور رہائشیں ہیں یہ وہیں رہنا پسند کرتے ہیں وہیں ان کا دل لگتا ہے وہاں کی آب و ہوا میں سانس لے کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ ادھر بھی رہتے ہیں جہاں انہیں جنت نظیر نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں لہذا انہیں کیا پڑی ہے کہ لوگوں کے لئے پریشان ہوں بہرحال یہ جو سیاسی گولا باری ہو رہی ہے محض اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہے ان میں سے کسی ایک فریق کے پاس موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کوئی پروگرام نہیں حزب اختلاف بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کر رہی وہ بس یہی کہتی ہے کہ عمران خان کو جانا چاہیے سوال یہ ہے کہ اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا وہ تو پہلے کی طرح ہی روئیں دھوئیں گے لہذا اسے ضرور کوئی سبیل نکالنی چاہیے کہ جس پر چل کر مسائل میں کمی واقع ہوتی ہو موجودہ حکومت نے تو غریب عوام کا برا حال کردیا ہے سرکاری ملازمین اپنی جگہ پریشان نظر آتے ہیں بزرگ پنشنرز جن کا ریلوے سے تعلق ہے تادم تحریر پنشن سے محروم ہیں وہ کیا کریں کہاں جائیں۔ ان کی پوری زندگی جس محکمے میں ملک و قوم کی خدمت کرتے گزری اب دوا و غذا کے لیے بھی معمولی رقم میسر نہ ہو تو ان کی حالت کیا ہو گی چشم تصور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ اس کے پاس فنڈ ختم ہوگئے 
ہیں اب وفاقی حکومت دے گی تو وہ پنشن کی ادائی کر سکے گی۔ نجانے عمران خان کس برتے میں اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں جب انہوں نے آئی ایم ایف کے لئے ہی سوچنا ہے اس کی شرائط ماننا ہے اور عوام کی رگوں سے خون کشید کرنا ہے تو پھر انہیں اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے عوام کی غالب اکثریت یہی چاہتی ہے یہ جو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ حزب اختلاف کی تحریک نے ان کے ناراض اور سوئے ہوئے کارکنوں کو ان کے قریب کر دیا ہے 
ٹھیک کہتے ہوں گے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ آنکھیں بند کرکے جو مرضی کرتے چلے جائیں اسے قبول کر لیں گے جن مسائل سے وہ دوچار ہیں ان کا حل بھی چاہتے ہیں‘ بھوک ننگ اور مفلسی انہیں کیسے گوارا ہوسکتی ہے لہذا انہوں نے اگلے ڈیڑھ برس میں بھی چیخیں نکلوانی ہیں تو اقتدار میں رہنے سے کیا حاصل انہیں جس طرح سمجھانے والوں نے سمجھایا ہے کہ جلسوں میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں کے نام توڑ مروڑ کرنہ لیں اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں وہ یہ بھی سمجھائیں ان کے بھی لوگ اس طرز تکلم کو ناپسند کرتے ہیں وہ ان الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتے وہ اپنی بہتری کے خواہاں ہیں مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں ہو رہی۔ خیرگنتی ہو رہی ہے کہ ہماری طرف اتنے ارکان ہیں اس کے پاس اتنے ہیں جبکہ منظر دھندلا ہے ان لوٹوں کا کچھ معلوم نہیں کدھر کا کریں گے۔ ذرا سوچئے ایسے لوگ جو جماعت بدلتے ہیں اپنی بولیاں لگواتے ہیں ان سے امید وفا رکھنا بیوقوفی اور سادگی نہیں ؟ حیرت یہ ہے کہ کس ڈھٹائی سے ادھر سے ادھر آ جا رہے ہیں انہیں رتی بھر بھی اس امر کا احساس نہیں کہ عوام ان کے بارے میں کیا سوچیں گے انہیں صرف مال پانی چاہیے ایسے ایوانوں کو عوامی نہیں کہا جاسکتا کہ گھس بیٹھیوں اور فصلی بٹیروں کو کیسے عوامی کہا جا سکتا ہے۔ دیکھ لیجئے پی ٹی آئی میں جو گھس بیٹھیے تھے واپس اپنی جماعتوں میں جا رہے ہیں۔انہوں نے کچھ کرنا تھا نہ کر سکتے تھے۔ اس کے اتحادی بھی منہ کھولے ہوئے ہیں اور اس بات کا خوب مزہ لے رہے ہیں کہ اب اونٹ آیا پہاڑ تلے یعنی اب ان کے مطالبات مانے جائیں گے۔ دیکھتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ’’ ناتی دھوتی رہ گئی نک تے مکھی بہ گئی‘‘ ایسا منظر ابھرتا ہے. بہر کیف حکومت کی خدمت گزاری محدود رہی ہے اس نے جو اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا ہے اس سے معیشت متاثر ہو سکتی ہے ہمارا آنی والی حکومت سے سوال ہے کہ کیا وہ اس معاہدے پر نظرثانی کر سکے گی جو آئی ایم ایف سے کیا گیا ہے مگر یاد آیا کہ حزب اختلاف نے خود حکومت سے تعاون کیا تھا لہذا مشکل ہے کہ وہ کوئی لائحہ عمل اختیار کرے۔ حرف آخر یہ کہ فریقین نے اپنے اپنے محاذ پر ڈٹ جانے کا اعلان کیا ہے یہ جوکچھ تئیس اور ستائس مارچ کو ہونے جارہا ہے وہ کسی طور بھی درست نہیں ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد حزب اختلاف کا قانونی و آئنی حق ہے حکومت اس میں روڑے نہیں اٹکا سکتی۔ حکومت اپنے دفاع میں جو کر سکتی ہے وہ کرے مگر جھگڑا کوئی بھی نہ کرے۔ دونوں کو ملکی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ عوام رْل گئے ہیں ان کی حالت بہت خراب ہوچکی ہے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے پوری قوم بددل و بدگماں نظر آتی ہے ایسے میں مل کر آگے بڑھنا چاہیے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے!

مصنف کے بارے میں