سیلاب، طوفانی بارشیں اور ریلیف… !

سیلاب، طوفانی بارشیں اور ریلیف… !

ملک کے سیلاب سے بُری طرح متاثرہ علاقوں جن میں سندھ اور بلوچستان کا بہت بڑا رقبہ اور جنوبی پنجاب کے راجن پور اور ڈیر غازی خان جیسے اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان ، چارسدہ اور سوات کے بعض علاقے شامل ہیں میں ہونے والے بے پناہ نقصانات اور وہاں کی کروڑوں پر مشتمل آبادی کو درپیش مسائل، مصائب اور مشکلات اور المناک صورتحال کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ اتنی صراحت، وضاحت، جُزئیات اور تفصیلات کے ساتھ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں آچکا ہے اور آرہا ہے کہ نہ صرف وطن عزیز کا ہر ذی ہوش فرد اس سے آگاہ ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی اس بارے میں بخوبی علم ہے۔ بلاشبہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ یہاں میں ایک نیوز چینل سے وابستہ معروف سینئر صحافی اور اینکر پرسن جناب حامد میر کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے سند ھ، بلوچستان ،جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سیلاب سے بُری طرح متاثرہ دور افتادہ علاقوں کے اپنی ٹیم کے ساتھ دورے ہی نہیں کئے بلکہ وہاں کے لوگوں کے مصائب اور مشکلات کو سامنے لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ جناب حامد میر کا ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے حوالے سے میں نے صرف ان کے کچھ ٹی وی پروگرام ہی دیکھے ہیں۔ ہوسکتا ہے اور بھی ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام دکھائے گئے ہوں یا دکھائے جا رہے ہوں، اگر ایسا ہے تو ان کے لیے بھی میں توصیفی کلمات ادا کرونگا۔ 
جناب حامد میر کے ٹی وی چینل سے وابستہ ایک اور قابلِ قدر شخصیت جناب آصف بشیر چوہدری سے میرے ذاتی مراسم ہیں جو اس ٹی وی چینل کے غالباً پارلیمانی رپورٹر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں وہ پارلیمانی پریس گیلری کے عہدیدار بھی ہیں ۔ پچھلے دنوں بلوچستان کے سیلاب سے بُری طرح متاثرہ علاقوں نصیر آباد ، جعفر آباد اور ڈیرا جمالی وغیرہ گئے تھے واپسی پر اُن سے رابطہ ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں جو تباہی اور بربادی ہوئی ہے اور لوگ جس طرح کے مصائب ، مشکلات اور تکالیف سے دو چار ہیں ، یہاں پنڈی اسلام آباد میں بیٹھ کر ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مجھ سے یہاں تک کہنا تھا کہ سیاسی اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات کا اپنے کالموں کا موضوع بنانے کے بجائے سیلاب زدگان کے مسائل ، مشکلات اور وہاں ہونے والی امدادی سرگرمیوں کو موضوع بنایا جانا چاہیے۔ اُن کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ سیلاب زدگان کی مشکلات ، مصائب اور نقصانات اتنے زیادہ ہیں اور امدادی سرگرمیاں خواہ حکومتی سطح پر کی جا رہی ہوں یا نجی اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے وہ بہرکیف ناکافی ، محدود اور اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف سمجھی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو برائے نام اور نام نہاد بھی کہا جا سکتا ہے۔ 
جناب حامد میر اور عزیزی آصف بشیر چوہدری کا ذکر برسبیلِ تذکرہ آگیا ورنہ کہنا یہ مقصود ہے کہ سیلاب اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانان، اتنے زیادہ ، ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہیں کہ ان کو پورا کرنا یا ان کے اثرات کوزائل کرنا اگر ناممکن نہیں ہے تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں، خدمتِ خلق کے ادارے اور این جی اوز اپنی بساط بلکہ بساط سے بڑھ کر امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں ۔ نقد امداد کے علاوہ ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی تک سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ علاقوں جن کا اُوپر حوالہ دیا گیا ہے کے مکینوں اور باسیوں کی مشکلات میں اُس حد تک کمی نہیں آئی ہے ان کی بحالی تو خیر یہ بعد کی بات ہے ان کی فوری ضروریات کو بھی پورا نہیں کیا جا سکا ۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ وسائل کی کمی اور دور اُفتادہ علاقوں تک ضروری امدادی ساما ن کے پہنچانے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور وجہ قومی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کا فقدان بھی ہے۔ کچھ احباب کو شائد یہ بات پسند نہ آئے لیکن دکھ کے ساتھ اس کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ ہماری بڑی قومی سیاسی جماعت تحریک انصاف مصیبت کی اس گھڑی میں قوم کے دکھ درد بانٹنے ، بالخصوص سیلاب زدگان کی امداد، بحالی اور ان کی دلجوئی کے لیے اس طرح سرگرم نہیں ہے جس طرح ہونا چاہیے۔ جناب عمران خان اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت شاید یہ اُدھار کھائے بیٹھی ہے کہ وفاقی حکومت کو سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی میں زیادہ سے زیادہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تاکہ تحریک انصاف خاص طور پر اس کے قائد عمران خان کو میاں شہباز شریف کی حکومت کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کرنے اور اس پر زیادہ سے زیادہ تنقید کرنے کا موقع مل سکے۔ خدا کے لیے اپنی انا کے خول سے نکل کر مصیبت زدگان کے دکھ درد مشکلات و مصائب کو کم کرنے میں کھل کر حصہ لیجئے ورنہ تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ 
یہاں اس امر کا اظہار کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ عالمی برادری بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ہمیں مصیبت کی اس گھڑی میں اس طرح کی معاونت اور امداد نہیں مل پائی ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس جو پچھلے دنوں پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور انھوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا بھی دورہ کیا تھا ان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ پاکستان کو بڑی امداد کی ضرورت ہے اور عالمی برادری پاکستان کی بھرپور مدد کرے۔ سیکرٹری جنرل نے بڑی عالمی طاقتوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ زیادہ سے زیادہ ایک فیصد ہو سکتا ہے جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری بڑی عالمی طاقتوں اور صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا پاکستان سب سے زیادہ نشانہ بن رہا ہے تو اس کی ذمہ دار عالمی طاقتوں اور صنعتی ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس ناگہانی اور المناک صورتحال میں پاکستان کی کھل کر امداد کریں۔ 
اللہ کریم سے رحمت کی التجاکرتے ہوئے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ جلد ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بہتر صورتحال سامنے آنا شروع ہو جائے گی اللہ کریم کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان علاقوں میں دور دور تک کئی کئی فٹ گہرے پانی کی سطح گرنا شروع ہی نہیں ہو چکی بلکہ خشک زمین اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں۔ سندھ میں منچھر جھیل میں پانی کی سطح کافی کم ہو چکی ہے۔ دریائے سندھ میں بھی پانی کا بہاؤ اونچے سیلاب کے درجے سے نیچے گر چکا ہے۔ ماہی گیر خوش ہیں کہ وہ دریائے سندھ کے پانی کے موجودہ بہاؤ میں مچھلیاں پکڑ سکیں گے جبکہ کچے کی زمین میں بھی سیلابی پانی سے بہہ کر آنے والی مٹی کی تازہ تہہ پھیلی ہوئی ہے کہ جس سے زمین کی زرخیزی میں بہتری آ سکے گی اور اللہ کرے گا کہ آئندہ فصلیں جو اس زمین میں بوئی جا ئیں گی بہتر پیداوار دیں گی لیکن یہ ساری باتیں بعد کی ہیں فی الحال سیلاب سے متاثرہ تین کروڑ سے زائد آبادی کے مسائل، مصائب اور مشکلات کو کم کرنا اور ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔ بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری بعض فلاحی تنظیموں کا کردار اس ضمن میں حسب معمول اور حسب روایت بہت قابلِ قدر رہا ہے۔ الخدمت، ایدھی فاؤنڈیشن یا سیلانی ٹرسٹ وغیرہ تو پچھلے کئی عشروں سے فلاحی کاموں میں سرگرمِ عمل چلے آ رہے ہیں ۔ یہاں میں ڈاکٹر امجد ثاقب کی فلاحی تنظیم اخوت کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا کہ اخوت جہاں ضرورت مند لوگوں کی امداد ، علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کو پھیلانے اور دوسرے رفاعی کاموں میں زور شور سے حصہ لے رہی ہے وہاں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے ، متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں میں مصروف ہونے اور لوگوں کے مصائب اور مشکلات کو کم کرنے میں اس کا کردار ہر لحاظ سے قابلِ تعریف شکل میں ہمارے سامنے آ رہا ہے۔