سیاست ہی سیاست

سیاست ہی سیاست

الیکٹرانک میڈیا میں ہمیں پڑھایا گیا کہ دورِ جدید میں سیاست پر کئے جانے والے پروگراموں کے لئے سپانسر شپس اور اشتہارات نہیں ملتے اور ملتے بھی ہیں تو بہت کم لیکن تفریحی اور شغل مغل کے پروگراموں کو سپانسر شپس اور اشتہارات خوب ملتے ہیں کیونکہ ناظرین کی اکثریت تفریحی اور شغل مغل کے پروگراموں کو زیادہ دلچسپی سے دیکھتی ہے۔ یہ ایک کاروباری حقیقت بھی ہے اور علمی طور پر بھی درست حقیقت ہے جسے پوری دنیا میں مانا بھی جاتا ہے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ سازی بھی کی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں معاملہ الٹ نظر آتا ہے یہاں ہماری فکری و نظری صحافت ہو یا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا ہو یا براڈ کاسٹ میڈیایہ طے شدہ اصول لاگو نہیں ہوتا ہے یہاں سیاسیات کا غلبہ ہے، سیاسی پروگرام چھائے ہوئے نظر آتے ہیں ہمارے صحافتی ہیرو اور نامور لکھاری، اینکر اور کالم نویس وہی ہیں جو سیاسی ہیں جو سیاست پر لکھتے ہیں، سیاست پر بولتے ہیں سیاست دکھاتے ہیں، سیاست سناتے ہیں ہمارے عوام، ہمارے سامعین، ناظرین اور پڑھنے والے بھی ایسے ہی ہیں ان کی فکرونظر اور عمل پر سیاست ہی سیاست چھائی ہوئی ہے کوئی دینی جماعت، جو پہلے کتنی بھی مقبول اور محترم تھی، کوئی سماجی تنظیم جو کبھی کتنی بھی معروف تھی، کوئی این جی او، کوئی خلق خدا کی محبوب و منظور شخصیت اب ایسی نہیں رہی ہے جو سیاسی نہ ہو اور اپنے مقام پر کھڑی رہ سکی ہو۔ علمی و فکری میدان کے شہسوار علامہ جاوید الغامدی ہوں یا مبلغ اعظم، مولانا طارق جمیل، جماعت اسلامی ہو یا دعوۃ والارشادوالی جمعیت، کوئی بھی محترم اور مقبول نظر نہیں آ رہا ہے سب کچھ سیاست نے نگل لیا ہے۔
ہر طرف سیاست ہی سیاست نظر آ رہی ہے۔ کوئی قومی سیاسی جماعت ہو یا علاقائی فکری تحریک، کوئی دینی گروہ ہو یا جمعیت، کوئی بڑی قدآور شخصیت ہو یا روحانی پس منظر رکھنے والی محترم شخصیت، زندہ رہنے اور پنپنے کے لئے سیاست کا سہارا لینے پر مجبور نظر آ رہی ہے۔ غامدی صاحب نے سیاست میں آنے سے انکار کیا انہیں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ مولانا طارق جمیل نے سکہ رائج الوقت قبول کر لی وہ حاکموں کے اسیر ہو گئے۔ اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے سیاسی ہو چکے ہیں۔ چند سال پہلے 2016-17 میں نوازشریف کو سیاست سے غائب کرنے کی سیاست کا آغاز کیا گیا ہمارے تمام سوچ و بچار اور فکروعمل رکھنے والے اداروں کو اس کام میں لگا دیا گیا۔ بیانیہ تشکیل تو پہلے ہی 2011 میں اس وقت دے دیا گیا تھا جب عمران خان پر مقتدرہ نے دست شفقت رکھ دیا تھا انہیں پالنا پوسنا شروع کر دیا گیا تھا انہیں دو جماعتی اقتدار میں تیسری متبادل قوت کے طور پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جلاوطنی سے واپسی کے بعد 2007 میں بے نظیر بھٹو صاحب عوامی 
پذیرائی کی تندوتیز لہر پر سوار ہو گئی تھیں جنرل مشرف سے این آر او لینے کے بعد جب وہ وطن واپس آئیں تو عوام نے انہیں جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر لیتے ہی چلے گئے تھے انہیں راستے سے ہٹانا ضروری ہو گیا تھا۔ پھر نوازشریف بھی وطن واپسی کے بعد عوامی پذیرائی کی لہر پر سوار ہو چکے تھے جو 2013 میں ایک تندوتیز طوفان کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ انہیں بھی راستے سے ہٹایا جانا ضروری تھا۔ ہماری مقتدرہ ان دونوں لیڈروں کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ ایک کو جسمانی طو رپر راستے سے ہٹا کر انہوں نے تصور کر لیا کہ پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہو گیا جبکہ دوسرے کو عدالت کے ذریعے سیاسی منظر سے ہٹا کر تیسری قوت کو متبادل قیادت کے طور پر 2018 میں مسندِ اقتدار پر لا بٹھایا گیا۔
اب انہیںمنظر سے ہٹانے یا یوں سمجھئے ان کے بال و پر کاٹنے کی تیاریاں ہو چکی ہیں۔ اپریل 2022 میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایوان اقتدار سے رخصت ہونا پڑا تو اس کے بعد سے وہ ایک دن بھی ’’نچلے‘‘ نہیں بیٹھے۔ انہوں نے عوام کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط اور مؤثر انداز میں قائم رکھا اور ہر شے کو طعن و تشنیع کے نشتروں کے ساتھ برباد کرنے کی کاوشیں جاری رکھیں۔ گزرے 5 ماہ کے دوران انہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کا تاثر قائم کر لیا ہے ان کی 44 ماہی دورِ حکمرانی کی نااہلیاں اور نالائقیاں پس پردہ جا چکی ہیں لوگ شاید ان کی ناکامیاں فراموش کر چکے ہیں عمران خان کے دورِ حکمرانی کی تلخ اور کڑوی باتیں بھول کر نہ صرف ان کے تگڑے بیانیے کے ساتھ نظر آ رہے ہیں بلکہ اتحادی حکمرانوں کی ناکامیوں کا شکوہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ عمران خان کو سیاست میں ناکام ہوتے ہوتے بچانے کی کارروائی کیوں کی گئی؟عمران خان اگر مزید 14 ماہ اقتدار میں رہتے تو نہ صرف ان کی عوامی پذیرائی ختم ہو چکی ہوتی بلکہ الیکشن 2023 میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اور پھر اتحادی حکومت کا قیام انہیں دوبارہ سیاسی زندگی دے گیا ہے یہ کارروائی کیوں کی گئی؟۔
اتحادیوں کا ’’سیاست نہیں، ریاست بچائو‘‘ کا بیانیہ عوام میں جڑیں نہیں پکڑ پا رہا ہے معاشی میدان میں حکمران اتحاد کی کارکردگی صفر نہیں بلکہ منفی ہے۔ ابتدا میں اسے عمران خان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے مکرنے کا باعث قرار دیا جاتا رہا اور کہا گیا کہ جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات ٹھیک ہو جائیں گے تو معاملات میں بہتری آ جائے گی۔ مہنگائی بھی قابو میں آ جائے گی۔لیکن ایسی تمام باتیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ معاہدہ بھی ہو چکا ہے اور قسط کے ڈالر بھی ہمیں مل چکے ہیں دیگر کئی ممالک بشمول سعودی عرب، قطر، یو اے ای اور دیگر مغربی ممالک اور اداروں سے رقوم کی ترسیلات بھی شروع ہو چکی ہیں لیکن مہنگائی ہے کہ قابو میں نہیں آ رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈی میں ارزانی ہو رہی ہے قیمتیں گر رہی ہیں لیکن یہاں ہمارے ہاں ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، بجلی کی قیمت انتہائی بلندیوں تک جا پہنچی ہے، گیس کی قیمت بڑھانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ اشیا ضروریہ کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ مہنگائی کا پیمانہ ہی ٹوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح 45 سے 50 فیصد کی طرف محو پرواز ہے۔ دو وقت کی روٹی تو دور کی بات ہے اب عام شہریوں کے لئے، عوام کی اکثریت کے لئے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل نظر آنے لگا ہے۔
ایک شے، ایک کارکردگی، ہر طرف نظر آ رہی ہے اور وہ ہے سیاست۔ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، چینل لگا کر دیکھ لیں، سوشل میڈیا ہو یا ابلاغ عامہ کا کوئی بھی ذریعہ اس پر سیاست ہی سیاست چھائی نظر آئے گی۔ انتقام اور دشنام کی سیاست عام ہو چکی ہے۔ ایسی سیاست نے معاشرے میں ہر سطح پر تفریق پیدا کر دی ہے۔ معاشرہ واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے یہ تقسیم نفرت اور گالم گلوچ پر مشتمل ہے۔ ایک دوسرے کو گرانے، شکست سے ہمکنار کرنے اور بالآخر میدان سے نکالنے کے لئے ہے کوئی اصول نہیں، کسی روایت کی پابندی نہیں، کسی اخلاقیات کی پاسداری نہیں، بس ایک ہی دھن نظر آ رہی ہے سیاست ہی سیاست ہر طرف سیاست ہی سیاست اور سیلاب ہی سیلاب ہے۔