توہین مذہب کا اندھا کلہاڑا

توہین مذہب کا اندھا کلہاڑا

میاں چنوں کے نواحی علاقے تلمبہ میں ایک ذہنی معذور شخص کو توہین مذہب کے نام پر اینٹوں ، پتھروں ، ڈنڈوں ، ٹھڈوں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس وحشت ناک واقعہ کو ملک میں امن امان اور فراہمی انصاف کی مجموعی صورتحال سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا ۔ ایسے واقعات میں حملہ آور ہجوم کو پورا یقین ہوتا ہے کہ ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی بلکہ الٹا ’’ مجاہد اسلام ‘‘ کا خطاب ملے گا ۔ مرنے والا مر گیا وہ بے گناہ تھا یا قصور وار ، یہ حقیقت جاننے کے بجائے حملہ آور ٹولے والے یہ کہتے پائے جائیں گے کہ ہم نے تو ’’ جہاد ‘‘ کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ پاکستان میں تو عام نوعیت مقدمات کی پیروی کرنا اپنے سر بلا ڈالنے کے مترادف ہے۔ کسی پر توہین مذہب کا جھوٹا ، سچا الزام آجائے اور وہ ہجوم کے ہاتھوں مارا جائے تو پولیس اور عدالتوں میں جانے کی جرأت کون کرے گا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب اس قسم کا کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو متاثرہ خاندان کے دیگر افراد خود صفائیاں دیتے اور اپنی جانیں بچاتے پھرتے ہیں ۔ بعض کے لواحقین کو تو ملک چھوڑ کر باہر جانا پڑ جاتا ہے ۔ تلمبہ والے انسانیت سوز واقعہ کے بعد 300 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق 15 مرکزی ملزموں کی شناخت کرکے انہیں گرفتار کرلیا ، جبکہ 85مشتبہ افراد کو حراست میں لیاگیا جن میں مرکزی ملزموں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ معاملے کا انتہائی افسوسناک پہلو یہ بھی ہے ذہنی معذور مقتول تین بچوں کا باپ تھا اور بھیک مانگا کرتا تھا۔ پچھلے 18سال سے پاگل پن میں مبتلا ہوگیا تھا اسی وجہ سے اس کی طلاق بھی ہوچکی تھی ،واردات کے دوران بپھرے ہوئے حملہ آوروں نے لاش کو جلانے کی بھی کوشش کی۔ پھر مردہ جسم کو درخت کے ساتھ لٹکا دیا۔ سانحہ سیالکوٹ کی طرح سانحہ تلمبہ کے دوران بھی تھوڑی بہت تاخیر کے ساتھ پولیس والے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے مگر مشتعل ہجوم کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے رہے ۔ ابھی سانحہ سیالکوٹ کے دلخراش یادیں تازہ ہیں اور اس میں ملوث افرادکو ان کے جرم کی سزا نہیں ملی کہ تلمبہ میں وہی منظر پھر دھرایا گیا ۔ وقوعے کے اگلے ہی روز صحافیوں نے علاقے کا دورہ کیا تو مقامی آبادی کو سخت شرمندہ اور پریشان پایا ،ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ جو کچھ ہوا ، بہت ہی برا ہوا ۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ سیالکوٹ میں توہین مذہب کے نام پر سری لنکن باشندے کی ہلاکت کے چند روز بعد کسی کام سے مجھے اسی علاقے میں جانا پڑا تو جس جس سے ملاقات ہوئی ، اسے شرمندہ اور افسردہ پایا ، کسان ، زمیندار ، صنعتکار ، مزدور ، دکان دار ، وکیل ، ڈاکٹر ، طلبہ اور علما تک کا یہی کہنا تھا کہ یہ قبیح حرکت کرکے اسلام اور پاکستان اور سیالکوٹ کا نام بدنام کیا گیا۔ اس سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ معاشرے کی غالب اکثریت ایسے رجحانات کی سخت مخالف ہے۔ لیکن جب توہین مذہب کے نام پر کوئی واردات ڈالی جارہی ہوتی ہے تو چند لوگوں کا ’’ مذہبی جنون ‘‘ اکثریت کو خوفزدہ ہوکر لاتعلق رہنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ ادھر سانحہ سیالکوٹ کی طرح سانحہ تلمبہ کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان نو ٹس لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کی جانب سے بھی قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش قطعاً گوارا نہیں کی جائے گی ۔ ہجوم کے تشدد کو نہایت سختی سے کچلیں گے۔ وزیر اعظم کے اس انتباہ میں کتنا دم ہے وہ سب جانتے ہیں ۔ اس لئے کسی کو بھی یقین نہیں کہ مجرموں کا ٹولہ قانون کے کٹہرے میں آکر قرار واقعی سزا پائے گا ۔بہر حال اس مرتبہ یہ عوامی تاثر بڑے پیمانے پر سامنے آیا ہے کہ اگر سانحہ سیالکوٹ میں ملوث کرداروں کو ’’جنت ‘‘ میں پہچانے کے لئے قانونی تقاضے پورے کرکے عمل درآمد کرلیا جاتا تو تلبمہ میں مخبوط الحواس شخص کی جان بچ سکتی تھی ۔ لیکن یہاں بڑے بڑوں کی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ میں سری لنکن باشندے کے بہیمانہ قتل کے بعد اہم حلقوں کی جانب سے یہ دریافت کیا گیا کہ اس میں کوئی تنظیم تو ملوث نہیں۔نفی میں جواب ملا تو گرفتاریوں شروع ہوئیں ۔ یہ ایک سادہ سا کیس ہے کچھ قاتل اعتراف جرم کرچکے ، باقیوں کے متعلق ٹھوس ویڈیو شواہد موجود ہیں۔ ہونا تو 
یہ چاہئے تھا کہ ایک مخصوص وقت طے کرکے سزائیں سنا کر عمل درآمد کرلیا جاتا مگر کیس اب تک پہلے مرحلے میں ہی اٹکا ہوا۔توہین مذہب کے نام پر لوگوں کو جان سے مار دینے کا سلسلہ نیا نہیں۔ اس کی آڑ لے کر کئی مرتبہ مخالفوں کو اوپر پہنچایا گیا ۔ دین دار اور باعمل مسلمان بھی اس مکروہ جال میں پھنسا کر مار دئیے گئے ۔ کچھ سال قبل لاہور کے نواح میں ایک فیکٹری مالک کو کو مزدوروں نے ایسا ہی الزام لگا کر مار ڈالا ۔ مقتول نمازی ، پرہیز گار تھا اور اس کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ۔ جماعت اسلامی کے اس وقت کے سربراہ قاضی حسین احمد بہت غمزدہ نظر آئے ۔ انہوں نے مقتول کے اہل خانہ کو انصاف دلوانے کی کوشش بھی کی ۔ مگر شاید کچھ خاص کامیابی نہیں ملی ۔ سیاست کے لئے صرف مذہب ہی نہیں بلکہ توہین مذہب کو استعمال کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ایسا انفرادی یا پارٹی کی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریاستی لیول پر بھی ہورہا ہے ۔ 2018 کے انتخابات کو ’’ مینج ‘‘کرنے والی قوتوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف ختم نبوت بل کا کیس اس طرح اچھالا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال کو گولی مار دی گئی جو خود دینی گھرانے کے فرزند ہیں ( انکی والدہ آپا نثار فاطمہ بہت بڑی دینی اور علمی شخصیت تھیں جبکہ خالو مولانا امین احسن جلیل القدر عالم دین تھے ) ۔ نواز شریف کو جامعہ نعیمہ میں جوتا مارا گیا ، خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی ، جاوید لطیف کا سر پھاڑ دیا گیا ۔ لیگی ارکان اسمبلی کے گھروں اور ڈیروں پر مسلح جتھوں کے حملوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ حالانکہ اصل واقعہ بھی وہ نہیں تھا جو بنا کر پیش کیا گیا ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پی ٹی آئی ، پی پی پی اور مسلم لیگ کے کچھ ارکان کے نام لے کر پورا واقعہ بیان کیا ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس بل کی تیاری کے لئے جو کمیٹی بنی اس میں تینوں بڑی پارٹیوں کے ارکان شامل تھے ۔بل سینٹ میں آیا تو کچھ غیر موزوں لگا - سراج الحق نے نشاندہی کی تو حافظ حمد اللہ بھی حمایت میں کھڑے ہوگئے ۔ راجہ ظفر الحق نے ان دونوں ارکان کی رائے کی فوری طور پر توثیق کردی ۔ اگلے ہی لمحے اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد نے اتفاق کرتے ہوئے تصحیح کرنے کا اعلان کر دیا۔ عین اس موقع پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے دو اہم ارکان ( احتیاط کرتے ہوئے نام نہیں لکھے) نے موقف اختیار کیا کہ مجوزہ بل پہلے سے بھی زیادہ موثر ہے لہٰذا اسے ہی برقرار رکھا جائے ۔ یہ تو تھا ایوان کا مجموعی رویہ مگر اسے کس کے خلاف خونی تماشا بنانے کی کوشش کی گئی وہ سب کے سامنے ہے ۔ اس وقت بھی اور حالیہ دنوں میں بھی تحریک لبیک کے پر تشدد مارچ ہوئے ۔ پچھلے مارچ کے دوران پنجاب پولیس کے چھ اہلکار جان سے گئے ۔ یہ مظاہرے اتنے زور دار تھے کہ آج سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دینے والے وزیر اعظم عمران خان کی بنی گالہ والی رہائش گاہ کے اردگرد رکاوٹیں کھڑی کرکے ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کرنا پڑے تھے ۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ جی ٹی روڈ پر بڑی بڑی خندقیں کھودی گئیں ، ہزاروں کنٹینر لگانا پڑے ۔ ایسے واقعات میں سارا قصور کسی تنظیم کا نہیں بلکہ وہ بھی برابر کے مجرم ہیں جنہوں نے ان سے جھوٹے اور ناقابل عمل وعدے کیے اور پھر تشدد کی راہ دکھائی ۔اس طرح کا سلسلہ مستقبل بھی رکتا نظر نہیں آرہا مگر ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہماری تمام بڑی اور موثر دینی سیاسی جماعتیں توہین مذہب کا کارڈ استعمال نہیں کر رہیں ۔ بنیادی نکتہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی بالادستی کا تصور سرے سے موجود نہیں ۔ سزا کی لاٹھی صرف کمزوروں اور غریبوں کے خلاف ہی حرکت میں آتی ہے ۔ طاقتوروں اور امیروں کے آگے قانون خود سرنگوں ہو جاتا ہے ۔ اسلام آباد کا نور مقدم کیس اس کی تازہ مثال ہے ۔ مالدار قاتل طرح طرح کے ڈھونگ رچارہا ہے ۔ اب کہہ رہا ہے کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں ڈرگ پارٹی کے بعد بے ہوش ہوگیا تھا ، ہوش میں آیا تو خود کو زنجیروں سے بندھا ہوا پایا ۔ جبکہ ’’ کسی ‘‘ نے لڑکی کا سر تن سے جدا کرکے میز پر رکھا ہوا تھا ۔ یہ کیس دو بااثر خاندانوں کے درمیان ہے پھر بھی کسی کو یقین نہیں کہ انصاف ہوگا ۔ دوسری طرف ’’فوری انصاف ‘‘ کا عالم یہ ہے کہ آئے روز زیر حراست ملزموں کو جعلی مقابلوں میں مارا جارہا ہے ۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ سب لاوارث اور اور غریب تھے ۔جعلی مقابلوں میں مارے جانے والوں نے واقعی کوئی جرم کیا تھا تو انہوں عدالتوں میں پیش کرکے سزا دلوانے کا لازمی قانونی تقاضا پورا کیوں نہیں کیا جاتا ۔پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عدالتوں پر سرے سے کوئی اعتماد ہی نہیں ۔ عالمی درجہ بندی میں 126 واں نمبر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ملک میں نظام انصاف کا جنازہ نکل ہوچکا ۔ عدالتوں کی کیا بات کریں ہمارے تازہ ریٹائر ہونے چیف جسٹس گلزار کی ہمت اور جرأت اتنی ہے کہ ملازمت سے فراغت کے بعد بھی اپنی سکیورٹی کے لئے صرف پولیس پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ سیدھا رینجرز کی نفری مانگ لی ۔فرمائش کی قبولیت کا یقین ہوتا تو شاید فوجی دستہ ہی مانگ لیتے۔ اب ایسے ریٹائرڈ جج کو کس سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے جس نے کوئی بڑا فیصلہ ہی نہ کیا ہو ( سوائے نسلہ ٹاور گرا کر لوگوں کو گھروں سے کھلے آسمان تلے لانے کے ) ۔ فرمانبردار اتنے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے لئے چھوٹی سی بھی مشکل پیدا کرنے والے مقدمات کو دباکر بیٹھے رہے ۔ بہر حال حکومت نے ’’ بڑے دل ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابق چیف صاحب کی درخواست منظور کرلی ہے ۔ اس طرح جسٹس( ر) گلزار بھی اپنے دوسرے سابق ’’فرض شناس ‘‘ ججوں کی طرح بھاری مراعات اورسکیورٹی پروٹوکول سے لطف اندوز ہونگے ۔ ریٹائرمنٹ سے یاد آگیا چند روز قبل ڈی ایچ اے میں ایک ریٹائرڈ صاحب سے گپ شپ ہوئی ۔ وہ اس بات پر تشویش میں مبتلا تھے کہ معاشرہ شدید عدم برداشت کی لپیٹ میں ہے ۔ توہین مذہب کا الزام لگا کر کوئی بھی دوسرے کو مار سکتا ہے ۔ میں نے عرض کیا آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے مگر آپ تو پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں ۔ رہائش بھی محفوظ بستی میں ہے ۔ دوسرے تمام خطرات کے ساتھ یہ خطرہ ہم عام 22 کروڑ پاکستانیوں کے لئے ہے۔