پاکستانیوں کو جان بوجھ کر کشتی کے سب سے خطرناک حصے میں رکھا گیا، حادثے سے 3 دن قبل انجن خراب ہوگیا تھا، اپیل کے باوجود یونانی کوسٹ گارڈز نے مدد نہیں کی، 388 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ہے: برطانوی اخبار کی ہولناک رپورٹ

پاکستانیوں کو جان بوجھ کر کشتی کے سب سے خطرناک حصے میں رکھا گیا، حادثے سے 3 دن قبل انجن خراب ہوگیا تھا، اپیل کے باوجود یونانی کوسٹ گارڈز نے مدد نہیں کی، 388 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ہے: برطانوی اخبار کی ہولناک رپورٹ

 ایتھنز : یونان میں ڈوبنے والی تارکین وطن کی کشتی کے حادثے کے بارے میں ہولناک انکشافات ہوئے۔عملے نے پاکستانیوں کو جان بوجھ کر کشتی کے سب سے خطرناک حصے میں لے کر جاکر بند کردیا۔ حادثے سے تین دن قبل کشتی کا انجن خراب ہوگیا تھا۔ یونانی کوسٹ گارڈز نے جان بوجھ کر مدد نہیں کی۔ 

برطانوی اخبار "دی گارجین" نے زندہ بچ جانے والے تارکین وطن کے بیان کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ   پاکستانیوں کو پناہ گزینوں کی کشتی پرچھت سے نیچے لاکر  خطرناک حصے میں رکھا گیا جس کی وجہ سے زیادہ پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ 

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو اس ٹرالر میں شامل کیا گیا ہے جو گذشتہ بدھ کو یونان کے قریب ڈوب گیا تھا جس میں سینکڑوں مسافروں کی ہلاکت کا خدشہ تھا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی طرف سے کوسٹ گارڈز کو  دیے گئے بیان (جو لیک ہوگیا)کے مطابق پاکستانیوں کو ڈیک کے نیچے زبردستی لایا گیا ۔  دوسرے ملکوں کے شہریوں  کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی جہاں ان کے ڈوبنے سے بچنے کا بہت زیادہ امکانات تھے۔ 

بیانات سے پتا چلتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو کشتی کے نچلے حصے میں "بند" کر دیا گیا تھا ۔  پاکستانی شہریوں کو بھی ڈیک کے نیچے رکھا گیا تھا جب وہ تازہ پانی کی تلاش میں  اوپر آتے  یا فرار کی کوشش کرتے  تو عملے کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے ۔ 

دی گارجین کا کہنا ہے کہ کشتی حادثے میں کوئی خاتون یا بچہ زندہ نہیں بچا  ۔  ایک اندازے کے مطابق جہاز میں تقریباً 400 پاکستانی سوار تھے۔ وزارت خارجہ نے اب تک تصدیق کی ہے کہ زندہ بچ جانے والے 78 میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے ہے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشتی کے حالات اتنے  خرات  تھے کہ اس کے ڈوبنے سے پہلے ہی  پانی ختم ہونے کے بعد چھ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ 

ایک مراکشی-اطالوی سماجی کارکن اور ایکٹوسٹ نوال سوفی نے  اخبار کو بتایا کہ  مسافر اس کے ڈوبنے سے ایک دن پہلے مدد کے لیے التجا کر رہے تھے۔میں گواہی دے سکتی ہوں کہ یہ لوگ کسی بھی اتھارٹی سے  مدد کے لیے کہہ رہے تھے ۔ یونانی حکام نے اس بیان کی تردید کی ہے ۔اور کہا کہ مسافروں نے کوسٹ گارڈ کو  مدد کے لیے کوئی درخواست نہیں کی کیونکہ وہ اٹلی جانا چاہتے تھے۔

کشتی کا انجن ڈوبنے سے  تین دن پہلے ہی  فیل  ہو گیا تھا جس سے امکان ہے کہ عملے نے مدد طلب کی ہو گی۔ زندہ بچ جانے والے   ایک تارک وطن کا کہنا ہم نے جمعہ کے دن فجر کے وقت سفر شروع کیا۔ تقریباً 700 افراد جہاز میں سوار تھے۔ہم تین دن تک سفر کر رہے تھے اور پھر انجن فیل ہو گیا۔

اخبار  کا کہنا ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق کوسٹ گارڈز نے کشتی کو رسی باندھی تھی  ۔ بیلنس برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے کشتی الٹ گئی ۔حادثے کے فوری بعد  کوسٹ گارڈ کا کہنا تھا  کہ  ہم نے کشتی سے "احتیاطی فاصلہ" رکھا ہے، لیکن جمعہ کو ایک حکومتی ترجمان نے تصدیق کی کہ کشتی کو "مستحکم" کرنے کے لیے رسی پھینکی گئی تھی۔

کوسٹ گارڈز کو منگل کی دوپہر ہی کشتی میں خرابی کا پتا چل گیا تھا ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز کو کشتی میں سوار افراد کی مدد کرنا چاہیے تھی۔  

مصنف کے بارے میں