وکیل پورشیا کب آئے گی؟

وکیل پورشیا کب آئے گی؟

ولیم شیکسپیئر انگریزی ادب میں دیوتا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بات پر شاید کوئی اعتراض نہیں کرے گالیکن اگریہ کہا جائے کہ شیکسپیئر نے اپنی ایک تحریر کے ذریعے آج دنیا میں رائج بینکاری نظام اور مذہبی تعصب کا پتا سینکڑوں برس پہلے دے دیا تھا تو بہت سے لوگ حیران ہوں گے کہ انگریزی دنیائے ادب کے ہیرو شیکسپیئر کا بینکاری اور مذہب سے کیا تعلق؟ آئیے! شیکسپیئر کو ایک نئے انداز سے پڑھتے ہیں۔ ڈرامہ ”مرچنٹ آف وینس“ چار بڑے کرداروں کے گرد گھومتا ہے۔ پہلا انٹونیو جو بحری تاجر ہونے کے باعث کئی کشتیوں کا مالک ہے۔ دوسرا بسینیو، انٹونیو کا دوست اور تیسری ایک لڑکی جس کا نام پورشیا ہے۔ یہ بسینیو کی محبوبہ ہوتی ہے۔ چوتھا اہم ترین کردار یہودی ساہوکار شائیلاک ہے جو لوگوں کو سود پر قرضہ دینے کے ظالمانہ نظام سے وابستہ ہے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ بسینیو کو اپنی شادی کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ اپنے تاجر دوست انٹونیو سے رقم ادھار مانگتا ہے۔ انٹونیو اسے بتاتا ہے کہ اِ س وقت اُس کی تمام کشتیاں بحری سفر پر ہیں لہٰذا اُس کے پاس ابھی اتنی رقم نہیں لیکن دوست کی شدید ضرورت کو دیکھتے ہوئے اُسے تسلی دیتا ہے کہ وہ شائیلاک سے اپنے نام پر پیسے ادھار لے کر اسے دے دے گا اور جب اُس کی کشتیاں واپس لوٹ آئیں گی تو یہودی کو ساری رقم واپس دے ڈالے گا لیکن ایسا ہوتا ہے کہ انٹونیو کی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں اور اُس کا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے۔ اِسی دوران شائیلاک کو روپے واپس کر نے کی آخری تاریخ بھی آجاتی ہے لیکن انٹونیو کاروبار میں نقصان کے باعث ایسا نہیں کرپاتا اور شائیلاک اسے عدالت میں لے جاتا ہے اور معاہدے کے مطابق انٹونیو کے جسم کے کسی حصے سے ایک پاؤنڈ گوشت کا ٹکڑا کاٹنے کی اجازت طلب کرتا ہے جبکہ وہ گوشت کے اس ٹکڑے کے لیے انٹونیو کے دل کو منتخب کرتا ہے۔ عدالت میں سناٹا چھا جاتا ہے اور رحم کی اپیل سے بھری سسکیاں ابھرتی ہیں لیکن خودغرض شائیلاک معاہدے کی تکمیل چاہتا ہے۔ عدالت انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور ہے۔ اُسی وقت ایک اجنبی وکیل نمودار ہوتا ہے جو جج کو اس مقدمے کی پیروی کرنے کی درخواست دیتا ہے۔ وکیل کی خود اعتمادی اور خوبصورت جواں سالی حاضرین کو متاثر کرتی ہے۔ ظلم کے خلاف ایک امید 
نظر آتی ہے لیکن وکیل معاہدے کے مطابق شائیلاک کو انٹونیو کا دل نکالنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ شائیلاک وکیل کی بہت تعریف کرتا ہے۔ حاضرین دردناک منظر کے تصور سے کانپنے لگتے ہیں اور وکیل کو تابوت میں آخری کیل سمجھتے ہیں۔ وکیل جو دراصل بسینیو کی محبوبہ پورشیا ہے اور مرد وکیل کے بھیس میں ہے، عین اس وقت عدالت کو شائیلاک کے لیے ایک حکم جاری کرنے کی درخواست کرتی ہے کہ یہودی بیشک انٹونیو کا دل نکال لے جوکہ معاہدے کے عین مطابق ہوگا لیکن اِس عمل کے دوران انٹونیو کے جسم سے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہنا چاہیے کیونکہ اس کی معاہدے میں گنجائش نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا تو شہر وینس کے قانون کے مطابق خون کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی شائیلاک کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ عدالت میں موجود سب اس دلیل پر دم بخود رہ جاتے ہیں۔ شائیلاک پر بجلی گرتی ہے اور وہ چیختا اور سٹپٹاتا ہے لیکن وکیل اپنی دلیل پھر دہراتی ہے کہ اگر انٹونیو کا دل نکالتے ہوئے خون کاا یک قطرہ بھی نکلا تو قانون کے مطابق شائیلاک کو سزائے موت ہو جائے گی۔ معاملہ بالکل صاف تھا۔ شائیلاک اپنا مقدمہ واپس لینا چاہتا ہے لیکن وکیل پورشیا اُس کی توجہ انٹونیو پر لگائے گئے دوسرے الزام کی طرف دلاتی ہے جس کے مطابق انٹونیو نے شائیلاک کی بیٹی کواغواء کیا ہوتا ہے لیکن حقیقت کھلتی ہے کہ شائیلاک کی بیٹی اپنی مرضی سے یہودیت چھوڑ کر عیسائی بن جاتی ہے اور اپنے ایک دوست کے ساتھ بھاگنے سے پہلے باپ کی رقم بھی اٹھا لیتی ہے۔ پورشیا وکیل دلیل دیتی ہے کہ شہر وینس کے قانون کے مطابق کسی پر جھوٹا الزام لگاکر اس کی جان خطرے میں ڈالنے سے شائیلاک کو اپنی آدھی جائیداد سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ قانون بالکل واضح تھا لہٰذا یہودی مقدمہ ہار جاتا ہے“۔ ولیم شیکسپیئر کے اِس ڈرامے سے ہم چند نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ لوگوں کی مالی مشکلات اور مجبوریوں سے یہودی شائیلاک فائدہ اٹھاتا ہے اور سودی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔ دوسرے لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ مذہبی تعصب پھیلاتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کو کمتر سمجھتا ہے۔ معصوم لوگوں پر جھوٹے الزامات لگاتا ہے۔ اسی لیے شائیلاک ظالم بے رحم اور سودی نظام کا سرپرست ہونے کے باعث سوسائٹی کا ولن ہے۔ عیسائی لوگ یہودی مذہب کو اچھا نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی شائیلاک کی بیٹی عیسائی لڑکے سے شادی کرنے کے لیے یہودیت چھوڑ کر عیسائیت قبول کرلیتی ہے جوکہ ڈرامے میں لڑکے کی اہم شرط تھی۔ مختصر یہ کہ ڈرامے میں موجود اُس معاشرے کے فسادات کی پوری کتاب کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اُس کے پیچھے شائیلاک ہی چھپا ہوا ہے۔ صدیوں پرانے اس منظر کو آج کی دنیا پر لاگو کیجیے۔ کرہئ ارض پر کاروبار اور بینکاری کا جو عملی ڈھانچہ موجود ہے وہ مکمل طور پر سود کے کندھوں پر کھڑا ہے۔ اس میں تازہ ترین اضافہ کریڈٹ کارڈ اور لیزنگ وغیرہ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بینکوں سے قرضہ حاصل کرنے والے مقروض زیور بیچنے، گھر قرقی کروانے اور بعض اوقات خودکشی کرنے کے باوجود بھی سود معاف نہیں کروا سکتے۔ آج کے مکروہ سودی نظام کی پوری کتاب کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کے پیچھے بھی وہی شائیلاک ہی چھپا ہوا ہے۔ آلو کے چپس، مشروبات، فاسٹ فوڈ کے ریسٹورنٹ، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، مشہور فلموں، لباس، فیشن، موبائل فون سے لے کر ادویات تک کے انٹرنیشنل کاروبار اور چھوٹے بڑے اسلحے کی خریدو فروخت کی پوری کتاب کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کے پیچھے سودخور شائیلاک ہی چھپا ہوا ہے۔ آج دنیا میں مذہبی تعصب کی آگ ہو یا خانہ جنگی کی بدصورتی، نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی ہو یا ایٹمی ہتھیاروں کے بہانے سے عراق کو خاک اور خون میں نہلایا گیا ہو، ملکوں ملکوں دہشت گردی کے منصوبے ہوں یا غزہ کے بچوں کو یتیم کرنے اور ہسپتالوں کو قبرستان بنانے کا مشن ہو، نہتے کشمیریوں کے کشمیر کو سینکڑوں دنوں تک جیل خانہ بنائے رکھنا ہو، امن کے نام پر ان سب معرکوں کی پوری کتاب کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کے پیچھے کاروباری سودخور شائیلاک ہی چھپا ہوا ہے۔ دنیا کی بڑی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اکثر مسلم حکومتیں بھی کشمیر سمیت دنیا میں جگہ جگہ بڑھتے درد، ابلتے خون اور سسکتی انسانیت پر خاموش ہیں۔ اِس زبان بندی کی پوری کتاب کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کے پیچھے سودخور شائیلاک ہی چھپا ہوا ہے۔ ولیم شیکسپیئر نے سولہویں صدی میں تھیٹر پر وینس کا شہر آباد کیا جس میں ظالم سودخور کاروباری شکست کھا جاتا ہے۔ کیا اکیسویں صدی کی حقیقت میں وینس کا شہر آباد نہیں ہوسکتا؟ کیا اکیسویں صدی کے کاروباری سودخور شائیلاک کے لیے عدالت قائم نہیں ہوسکتی جہاں شائیلاک اپنا مقدمہ ہار جائے؟ آج کے چالاک سودخور شائیلاک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے وکیل پورشیا کب آئے گی؟