الیکشن کی ضمنیاں!

 الیکشن کی ضمنیاں!

پاکستان کے مقبول ترین اورنامعقول ترین سیاسی رہنما کی تیز طرار، چتر چالاک اور ہیراپھیریوں کی ماہر سوشل میڈیا ٹیم یہ تاثر پھیلانے میں بھی کامیاب رہی ہے کہ خان صاحب نے گیارہ سیاسی جماعتوں کو شکست دے کر ضمنی انتخابات میں اکیلے ہی کامیابی حاصل کرلی ہے …… یہ ”پوراسچ“ نہیں یہ اُدھورا سچ ہے۔ ہم اِس پر بھی خوش ہیں پی ٹی آئی نے اِس معاملے میں اُدھورا سچ ہی بول دیا ہے ورنہ اُنہیں پورا جھوٹ بولنے کی جو مہارت اب حاصل ہوچکی ہے اُس کا مقابلہ دنیا بھر کے جھوٹے مِل کر بھی نہیں کرسکتے، خوش قسمتی سے اُن کا جھوٹ بِک بھی رہا ہے، یہ وہ معاشرہ ہے جِس میں سچ کی اہمیت آہستہ آہستہ دم توڑتی جارہی ہے۔ پورا سچ اب بولا جاتا ہے لکھا جاتا ہے نہ سُنا جاتا ہے، پہلے سچ کا بول بالا ہوتا تھا اب منہ کالا ہوتا ہے،……”چرب گوئی کے ہنر سے دیدہ ور ہو جائے گا …… جھوٹ بولے گا زیادہ معتبر ہو جائے گا“ …… بے شمار دوسرے سیاستدانوں کی طرح خان صاحب بھی اِس ”حقیقت“ کو سمجھ چکے ہیں لہٰذا وہ بھی اب اُتنا ہی جھوٹ بولتے ہیں جتنا دوسرے سیاستدان بولتے ہیں۔ وہ ایمان کی حدتک اِس یقین میں مبتلا ہیں اُن کے ہرجھوٹ کو لوگ سچ سمجھتے ہیں، یہ بات درست بھی ہے، حتیٰ کہ وہ آج اگریہ کہہ دیں ”میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا“ لوگ اِسے بھی سچ ہی سمجھیں گے۔ البتہ وہ اگر یہ ”سچ“ بول دیں یا اُگل دیں ”2018کا الیکشن اُنہیں ”حاجی صاحب“ یا کچھ غیر ملکی غیبی قوتوں نے جتوایا تھا، اِس پر شاید لوگ یقین نہ کریں کیونکہ خان صاحب کو دیوتا سمجھنے والے لوگ خان صاحب کے صرف اُسی سچ پر یقین کرتے ہیں جو خان صاحب کے حق میں جاتا ہو، ……اِن حالات میں خان صاحب کی سوشل میڈیا ٹیم، اُن کے حواری ودرباری اگر اِس ”سچ“ کو پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں خان صاحب نے گیارہ سیاسی جماعتوں کو چاروں شانے چِت کردیا ہے، یا خان صاحب یا اُن کے کچھ اُمیدواروں نے پہلے سے زیادہ ووٹ لئے ہیں تو اُنہیں بھلا کون روک سکتا ہے؟۔ جو جھوٹ پہلے وہ ”کارِثواب“ سمجھ کر بولتے رہے ہیں اُنہیں کون روک سکا ہے؟۔ آئندہ بھی جو جھوٹ وہ کارثواب سمجھ کر بولیں گے اُنہیں کون روک سکے گا؟۔ اُن کے جھوٹ دھڑا دھڑ بِک رہے ہیں، اور اُن کے مقابلے میں گیارہ سیاسی جماعتوں کے کِسی ایک سچ پر لوگ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں، اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اِن سیاسی جماعتوں نے ماضی میں خود اتنے جھوٹ بولے ہیں اب وہ سچ بھی بولیں لوگوں کو وہ جھوٹ ہی لگتے ہیں، جیسے خان صاحب جھوٹ بھی بولیں لوگوں کو وہ سچ ہی لگتے ہیں، پاکستان کے حالات اگر ٹھیک نہیں ہورہے اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے صبح وشام لوگ جھوٹ بولتے ہیں، ریاست مدینہ کی بات کرنے والے نے تو حد ہی مُکا دی ہے، اپنے ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ”تسبیح“ کا جتنا سہارا اُس نے لیا پاکستان میں شاید ہی اور کسی نے لیاہوگا۔ ……جہاں تک ضِمنی انتخابات کا تعلق ہے میرے نزدیک یہ صرف پیسے، قومی وسائل اوروقت کا ضیاع تھا، اِس سے کوئی تبدیلی نہیں آنی۔ پاکستان میں عام انتخابات سے کوئی ”تبدیلی“ نہیں آج تک آئی ضِمنی انتخابات سے کہاں آئے گی؟۔ ضِمنی انتخابات ویسے بھی زیادہ تر حکومتیں ہی جیتتی ہیں، پنجاب اور کے پی کے میں چونکہ خان صاحب کی حکومتیں ہیں خان صاحب اتنے مقبول نہ بھی ہوتے ضِمنی انتخاب وہی جیتتے……پنجاب میں چونکہ اُن کی پوری حکومت نہیں جس کا نقصان یہ ہوا ملتان میں اپنی قومی اسمبلی کی ایک نشست سے اُنہیں ہاتھ دھونا پڑگئے، اِس نشست کے چھن جانے کی دیگر وجوہات بھی ہیں، سب سے بڑی وجہ یہ ہے اپنے ایک ایسے رہنما کی صاحبزادی کو اُنہوں نے ٹکٹ دیا جو ہروقت یہ سوچتا رہتا ہے کب خان صاحب راہ سے ہٹیں اور پارٹی پر قبضہ کرنے کا اُس کا دیرینہ خواب پورا ہو سکے، ممکن ہے مستقبل قریب میں وہ خان صاحب کو اِس بات پر بھی قائل کرلے آئندہ  انتخابات میں پی ٹی آئی  کا ٹکٹ صرف اُسے دیا جائے گا جو اُس کا ”مرید“ ہوگا …… فیصل آباد سے نون لیگی اُمیدوار عابد شیرعلی کے جیتنے کا اچھا خاصا خطرہ تھا، وہ شریف فیملی کے قریبی عزیز بھی ہیں، میاں محمد نواز شریف کی ذاتی قرابت اُنہیں حاصل ہے، پچھلے تین ساڑھے تین برس وہ لندن میں نواز شریف کے پاس رہے، سو عمومی تاثر یہ تھا یہ ضمنی الیکشن عابد شیر علی نہیں نواز شریف خود لڑرہے ہیں، رانا ثنائاللہ اور شیرعلی خاندان میں پرانی سیاسی رنجش تھی، یہ رنجش بھی اب ختم ہوچکی ہے، اِس کے باوجود وہ الیکشن ہار گئے، مجھے یقین تھا وہ الیکشن ہار جائیں گے مگر اس بار اتنے ہزاد ووٹوں سے ہاریں گے یہ یقین نہیں تھا، نواز شریف کے ایک ذاتی اور قریبی عزیز کے الیکشن ہارنے سے یہ تاثر بھی قائم ہوا اگلے عام انتخابات میں نواز شریف خود بھی واپس آگئے خان صاحب کی مقبولیت پر کوئی بڑا ”ڈینٹ“ نہیں پڑے گا …… محض اپنے کرپشن کیسز ختم کروانے کے لیے نون لیگ، خان صاحب سے حکومت واپس لے کر جو ”ڈینٹ“ خود پر ڈال چکی ہے وہ اتنی آسانی سے نکلنے والا نہیں ہے، یہ حماقت کسی لالچ میں آکر شریف برادران نہ کرتے مقبولیت کے جس گراف پر آج خان صاحب ہیں اُس پر شریف برادران ہوتے، یہ تاثر جو، اب خان صاحب سے جڑ گیا ہے شریف برادران سے جُڑجاتا کہ اگلے عام انتخابات میں وہ کلین سویپ کریں گے،…… اب اگلے انتخابات میں وہ اگلے ”حاجی صاحب“ کے رحم وکرم پر ہوں گے اور ہمارے ”حاجی صاحبان“ کو احسان فراموشی کی جو عادتیں پڑی ہوئی ہیں ضروری نہیں اُن کے اپنے لائے ہوئے ”حاجی صاحب“ اُن ہی کی سپورٹ کریں، …… جہاں تک اگلے روز ہونے والے ضِمنی انتخابات کے نتائج کا معاملہ ہے اِس سے کوئی تبدیلی فوری طورپر آنے والی نہیں ہے، یہ نتائج نومبرمیں ہونے  والی اہم تقرری پر اثرانداز ہوں گے نہ ہی حکومت گرے گی، …… اصلی فیصلے اصلی قوتوں نے ہی کرنے ہیں، خان صاحب کے پاس ”مقبولیت“ کا ایک ”ناکارہ ہتھیار“ ہے، یہ ہتھیار اگر چلنا ہوتا اُس روز چل گیا ہوتا جس روز اُن کی حکومت چلی گئی تھی، یا تب چل گیا ہوتا جب چوروں اور ڈاکوؤں کے کرپشن کیسز ختم ہوئے تھے۔ ……اپنے ماضی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ حقیقت خان صاحب کو سمجھ لینی چاہیے صرف وہی ”مقبولیت“ اقتدار تک لے جاتی ہے جو ”حاجی صاحب“ کی وجہ سے مِلتی ہے!!

مصنف کے بارے میں