بلقیس ایدھی بھی چلی گئیں!

بلقیس ایدھی بھی چلی گئیں!

ایدھی فاونڈیشن کی چیئر پرسن بلقیس ایدھی عرف ’’ممی جی ‘‘ بھی چلی گئیں، وہ اور ایدھی صاحب ہمارے معاشرے میں ’’خدمت‘‘ کا استعارہ ہوا کرتے تھے، لوگ اْن سے انسانیت کی خدمت کرنا سیکھتے تھے۔ اْن کا دل جذبہ انسانیت سے لیس تھا۔اور اب جب وہ جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں تو لوگ انہیں سنہرے الفاظ میں یادرکھیں گے۔ بلقیس ایدھی عارضہ قلب سمیت دیگر امراض کا شکار تھیں گزشتہ ایک ہفتے سے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔ان کا سانحہ ارتحال اپنے شوہر کی رفاقت میں قائم کردہ فلاحی اداروں اور ان سے وابستہ بے سہارابچوں اور خواتین سمیت ملک و قوم کیلئے دکھ کا باعث ہے۔ پاکستان کے عوام اور حکومت کے نزدیک ان کی خدمات نہایت قابل قدر ہیں جن کے اعتراف میں انہیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ بھارت نے اپنی پندرہ سالہ گیتا نامی لڑکی کی دیکھ بھال کرنے پر بیگم بلقیس ایدھی کو 2015ء میں مدر ٹریسا ایوارڈ دیا، 1986ء میں رومن میگسیسی اور بعد ازاں روسی حکومت کی طرف سے لینن پیس ایوارڈ کی صورت میں شوہر کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کو بھی عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ بیگم بلقیس ایدھی 14اگست 1947ء کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئیں بعدازاں اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے کراچی آبسیں۔ انہو ں نے محض سولہ برس کی عمر میں عبدالستار ایدھی کے قائم کردہ سکول سے نرسنگ کی تربیت حاصل کی۔ محنت،لگن اور جوش و جذبہ دیکھتے ہوئے انہیں اسی ادارے میں نرسنگ کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ شادی کے بعد دونوں مخیرشخصیات نے بہت سے فلاحی کاموں کا بیڑا اٹھایا اور اپنا ایک ایک پیسہ ان کے نام وقف کردیاجن میں آج ملک بھر کے ایدھی ہومز اور جھولا کے نام سے مراکز شامل ہیں۔ غریبوں کی آخری آس بلقیس ایدھی عظیم سوچ ،مقصد اور خواہش رکھتی تھیں۔زندگی میں ہمیشہ سادگی کی ادا کو اپنایا اپنے چھوٹے سے آنگن میں ، اپنی گود میں لاکھوں بچوں کی پرورش اور تربیت کی۔وہ محسن انسانیت تھیں ،جس نے بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل ،دکھی مخلوق خدا کی صحیح معنوں میں بے لوث خدمت کی۔بلقیس ایدھی ،عبدالستار ایدھی ،رتھ فاواور دیگر بے شمار ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے دھرتی پاکستان کی حقیقی معنوں میں جذبہ خدمت سے سرشار ہو کر خدمت کی۔ان تمام تر شخصیات کے برعکس اگر ہم اپنے 
سیاست دانوں کی عوامی خدمات ،جن کا وہ پل پل دعویٰ کرتے تھکتے نہیں بالکل زیرو ہے۔ زندگی محض اپنے لئے جینے کا نام نہیں بلکہ انسانوں کے غم ،دکھ،تکلیف میں شرکت کرنے اور ایک دوسرے کا احساس کرنے کا نام ہے اور یہ درس ہمیں جاتے جاتے مرحومہ بلقیس ایدھی دے کر گئی ہیں۔ اس خلا کو کوئی پر نہ کر سکے گا لیکن پاکستان کی ہر ماں، ہر بیٹی، بیٹا، غریبوں، دکھی انسانوں ،بے گھروں مسکینوں و یتیموں کا سہارا بننے کے مشن کو آگے ضرور بڑھائیں گے۔تا کہ اگلے جہاں میں ان کی روح کو اطمینان ملے۔
آپ یقین مانیں کہ میں نے بذات خود اْنہیں سے متاثر ہو کر انسانیت کی خدمت کے جذبہ کے تحت ’’سایہ ویلفیئر فائونڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی، کراچی میں اْن سے ایک بار ملاقات کی ہوئی لیکن اْن کی شخصیت نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے واپس لاہور آکر انسانیت کی خدمت کو اپنا ’’مشن‘‘ بنا لیا۔ کیوں کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ بیٹا خلق خدا کی خدمت کرنا ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔ آج انہی کی بدولت سایہ ویلفیئر فائونڈیشن میں درجنوں بوڑھے والدین جنہیں کوئی نہیں اپناتا اْنہیں سایہ ویلفیئر نے اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔ اور آپ اس حوالے سے حیران ہوں گے کہ یہاں ہر ہر فرد کی ایک مکمل کہانی ہے جسے سن کر آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔ 
خیر بات ہو رہی ممی جی کی تو اْن کے ہاتھوں بڑے ہوئے بچے آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جیسے اْن کی وفات پر رابعہ بانو نامی اْن کی ایک ’’بیٹی ‘‘نے سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کی ہے جو ایدھی ہوم میں پرورش پانے کے بعد آج دنیا کی نمبر ون شو کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ، اور ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کررہی ہیں۔لکھتی ہیں کہ ’’اٹھائیس سال پہلے مجھے کراچی، پاکستان میں واقع ایدھی ہوم میں لاوارث بچوں کے جھولے میں چھوڑ دیا گیا تھا، آپ (بلقیس ایدھی) نے مجھے پایا، آپ نے میرا نام اپنی والدہ رابعہ بانو کے نام پر رکھا،مجھے شناخت دی، پھر آپ نے مجھے گھر دیا۔ آپ کی وجہ سے آج… میں ’کچھ‘ ہوں، میری ایک پہچان ہے، اور میرے پاس پیار کرنے والے والدین ہیں کہ وہ مجھے اپنا کہلوائیں۔آپ (بلقیس ایدھی) نے خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، آپ ایک سرگرم کارکن، انسان دوست، نیک مقصد کے لیے پرعزم تھیں۔ آپ نے مجھے عورت کی طاقت سکھائی، خود دار اور خود اعتمادی کا سبق دیا اور غیر معمولی طور پر کسی مقصد کو حاصل کرنے کا سبق بھی میں نے آپ سے ہی سیکھا۔آپ کی وجہ سے ہی پیدائش کے وقت سے یتیم ایک ننھی پاکستانی بچی نے خواب دیکھنے کی ہمت کی، آپ کی وجہ سے میں گریجویٹ سطح کی تعلیم کے ساتھ ایک خودمختار عورت ہوں اور دنیا میں ایک ایسے مقام پر ہوں کہ کہ آج کسی کے سامنے اپنا تعارف اعتماد سے کرا سکوں، آپ نے مجھے موقع دیا، آپ نے مجھے خواب دیکھنے کا موقع دیا، اور آپ نے ہی مجھے آزادی سے سے جینا سکھایا۔دنیا کے لیے آپ بلقیس ایدھی ہیں، لیکن میرے لیے آپ بڑی اماں ہیں، آپ کی بدولت میرے پاس دو پیار کرنے والے والدین ہیں جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میرے پاس وہ سب کچھ ہو جس کی میں کبھی خواہش رکھتی تھی۔ میں ایک اعلیٰ ہائی سکول گئی، پورے کالج میں سکالرشپ حاصل کی، برونکس ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس، یو ایس کانگریس، یو ایس سینیٹ میں انٹرن شپ کی اور سائبر سیکیورٹی اور ڈیٹا پرائیویسی لاء میں ماسٹرز کرنے کے لیے لاء سکول گئی اور ان تمام کامیابیوں کی وجہ صرف آپ ہیں۔آپ میں سے ان لوگوں کے لیے جو پہلی بار بلقیس ایدھی کے بارے میں پڑھ رہے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ آپ جانیں کہ وہ میرے لیے اور پورے پاکستان کے لیے کون تھیں۔ بلقیس ایدھی ایک ہیرو تھیں، وہ بہت سارے یتیموں (میری طرح) کی ماں اور انسانیت کے لیے پاور ہائوس تھیں۔ بڑے ابو (عبدالستار ایدھی) کو کھونا مشکل تھا، لیکن آپ کے کھونے نے مجھے آج پھر سے یتیم ہونے کا احساس دلایا ہے۔
بہرکیف دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔بلقیس ایدھی نے اپنی زندگی کی چھ دہائیاں غم خواروں اور دکھی انسانیت کے لیئے گزار دیں، لیکن 74 سال کی عمر میں بلقیس ایدھی سب کو تنہا چھوڑ گئیں۔اس دوران ایدھی صاحب اور ممی جی دونوں کبھی مایوس نہیں ہوئے اور آج ایدھی فائونڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی سماجی تنظیم ہے، جس کی شاخیں نہ صرف پاکستان کے کونے کونے بلکہ بیرون ملک میں بھی موجود ہیں۔ نہ صرف اس کی ایمبولینسز کا جال پورے ملک میں بچھا ہوا ہے بلکہ آج ایدھی فائونڈیشن کے پاس امدادی سرگرمیوں کے لیے جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی ہے۔اللہ اْن کی اگلی منزلیں آسان اور ہم سب پر کرم فرمائے۔ (آمین)

مصنف کے بارے میں