عمران کا ریاست پر وار

عمران کا ریاست پر وار

ہم نے اپنے بزرگوں سے ایک بات سیکھی ہے۔ میرے دادا شیخ محمد مرحوم ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ گھر کی بات گھر میں رہنی چاہیے۔ اگر کبھی مشکلات کا شکار ہوجاؤ۔ کبھی کسی بات پر اختلافات ہو جائیں۔ ان مسائل اور اختلافات کو گھر میں بیٹھ کر سلجھاؤ۔ گلیوں، چوکوں اور چوراہوں میں اپنے مسائل لے کر جاؤ گے تو لوگ تمہاری کمزوری کا فائدہ اٹھائیں گے۔ہمیشہ اپنے آپ کو طاقتور ظاہر کریں۔  ہمارے پورے خاندان نے ان کی یہ نصیحت ہمیشہ پلے سے باندھ کر رکھی۔ معاشی طور پر مشکل حالات بھی آئے کبھی باہر کسی کو خبر نہیں ہونے دی۔ خاندانی اختلافات کو کبھی دنیا کے سامنے نہیں لے کر گئے۔ گھر میں بیٹھ کر ہی مسئلہ حل کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کامونکی کے چھوٹے علاقے سے ترقی کرکے ہم سارے بھائی لاہور پہنچے۔ سب نے اپنے اپنے شعبوں میں نام کمایا۔جس طرح ایک گاؤں، شہر، صوبہ اور پھر ملک ہوتا ہے۔ اسی طرح دنیا بھی ایک گلوبل ویلج ہے۔ یہ ایک سو پچانوے ممالک کا ایک گاؤں ہے۔ جس میں ہر ملک کی حیثیت ایک گھر کی سی ہے۔ گلوبل ویلج کے ممالک دوسرے ممالک میں ہونے والے واقعات و حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ سمجھدار ممالک اپنے اندرونی اختلافات چاہے وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں دوسروں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ ملک میں نظام چلانے والی تمام سیاسی طاقتیں ایک قومی دائرے کے کوڈ آف کنڈکٹ کی پابند ہوتی ہیں۔ جس میں ملک اور اس کا وقار ہر صورت مقدم رکھا جا تا ہے۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کی موجودگی قومی سطح سے بین الاقوامی سطح پر نہ صرف جگ ہنسائی کاسبب بنی بلکہ اب یہ معاملات  ملکی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کے تمام دوستوں کو ناراض کیا۔بین الاقوامی برادری نے پاکستان کے معاملات سے دوری اختیار کر لی۔ لیکن ہمارے ہاں عمران خان کے ناکام بیرون ملک دوروں کی ویڈیوز دکھا دکھا کر یہ پراپیگنڈا کیا گیا۔ دیکھو ہمارا وزیراعظم کتنا ہینڈسم ہے۔ دنیا میں کبھی حکمرا ن کو شکل و صورت اور اس کی جسمانی کشش کی بنیاد پر نہیں چنا جاتا۔ بلکہ یہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ یہ شخص کتنا ذہین، عقلمند، معاملہ فہم اور زیرک ہے۔ کیا یہ شخص قومی اور بین الاقوامی سیاست کے اتارچڑھاؤ کے مطابق ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا اہل ہے۔ امریکہ میں باراک اوبامہ اور ہیلری کلنٹن صدارتی امیدوار کی دوڑ میں ایک  ہی جماعت میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے مخالف کمپین کرتے رہے۔ کئی مناظروں میں آمنے سامنے بحث مباحثے ہوئے۔ لیکن جب باراک اوبامہ صدر بن گئے تو انھوں نے ہیلری کلنٹن کو اپنی وزیر خارجہ بننے کی آفر کی جو انھوں نے ملکی مفاد میں قبول کر لی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ماضی میں ایک دوسرے کی شدید مخالف جماعتیں رہی ہیں۔ لیکن اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات پر اگر خاموش رہنا پڑا تو خاموش رہیں۔ اس کے برعکس عمران خان اقتدار پرستی میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ انھیں اس بات سے کوئی غرض نظر نہیں آتی کہ ملک کو ان کی باتوں سے کیا نقصان ہورہا ہے۔ انھیں صرف اس بات سے غرض ہے کہ انھیں تمام تر نا اہلیوں کے باوجود لاڈلا بچہ بنا کر رکھا جائے۔ کیا کسی ایک شخص کی انا اور خواہش پر پورا ملک قربان کیا جا سکتا ہے؟ بالکل نہیں، ہرگز نہیں۔ پاکستان آج ڈیفالٹ کے جن خطرات سے دوچار ہے۔ اس میں بڑا ہاتھ عمران خان کے پچھلے پونے چار برس کی ناقص معاشی اور خارجہ پالیسی کا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو سہارا دینے کیلئے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو بار ہا اپنا اثر رسوخ استعمال کرنا پڑا۔ جس کا حال ہی میں انھوں نے بالواسطہ طور پر ذکر بھی کیا ہے۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر دوست ممالک سے باقاعدہ درخواست کی گئی کہ تحریک انصاف حکومت کی مدد کی جائے۔ جس قدر موقع اور سہارا عمران خان کو بطور وزیر اعظم فراہم کیا گیا اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی حکومت نہ چلا سکے تو شاید اس کے لئے ڈکشنری میں سے نااہلی سے بھی بڑا لفظ ڈھونڈ کر لانا پڑے گا۔ اگر بات صرف اس نااہلی اور حکومت ختم ہوجانے تک رہ جاتی تو اس ملک کی کچھ رہی سہی عزت بچ جانے کا امکان تھا۔ لیکن جس شخص کو صرف اپنے اقتدار اور وزارت اعظمیٰ کی کرسی سے اس قدر اندھی محبت ہے۔ جس میں وہ سیاہ سفید یا درست اور غلط کی تمیز ہی نہ کر سکے تو ایسا شخص ملک کے لئے زحمت کا باعث ہوتا ہے۔ بار بار ایک ہی بات کر رہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا، سری لنکا بن جائے گا۔  کیا لیڈر ایسا ہوتا ہے؟ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بی جے پی اور کانگرس نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ راہول گاندھی نریندر مودی کے شدید ناقد ہیں۔ لیکن آج تک راہول گاندھی کی جانب سے کوئی بھی ایسا بیان سامنے نہیں آیا جو ان کی قومی سلامتی کے مخالف ہو۔ لیکن یہ صرف پاکستان میں عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جو مخالفت برائے مخالفت میں تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ مجھے نہ جانے کیوں بار بار عمران خان سے متعلق ڈاکٹر اسرار اور حکیم سعید شہید کی وہ پیشگوئی یاد آتی ہے۔جس میں انھوں نے وارننگ دی تھی کہ  ایک یہودی لابی عمران خان کی سرپرستی کر رہی ہے اور اسے حکمران بنا کر ملک کو دیوالیہ کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت اصل معاملہ ملک پر لٹکتی ہوئی معاشی تلوار ہے۔ آج جب ملک بحرانوں میں گھرا ہے۔ اس وقت عمران خان اور ان کی جماعت کے لوگ مسلسل ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سری لنکا جیسی صوتحال پیدا ہو رہی ہے۔ 2022 میں بد ترین سیلاب نے ملک کی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ملک کا ایک تہائی علاقہ زیرآب آگیا۔ ابھی تک کئی علاقوں سے پانی نہیں نکالا جا سکا۔چالیس ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ عمران خان جو دراصل مجھے کیوں نکالا کی سیاسی مہم پر تھے۔ انھوں نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ ملک پہلے ہی عمران خان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مشکل حالات سے گز ررہا تھا۔ ایسے میں عمران خان نے ستمبر دو ہزار بائیس سے ہی ملک کی اس کمزور معاشی حالت کو اپنی سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے کا پلان بنایا۔ اس کے لئے اپنی معاشی ٹیم جس میں حماد اظہر، شوکت ترین، تیمور جھگڑا، اسد عمر، جمشید چیمہ اور فواد چوہدری سمیت سابق وزرا کو اس کام پر لگایا کہ وہ میڈیا پر بیانات دے کر یہ ہوا بنائیں کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔ کیونکہ عمران خان پاکستان کی معیشت میں آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزیوں سے لے کر دوست ممالک کو ناراض کرنے کے عمل کے ذریعے بارودی سرنگیں بچھا چکا تھا۔وہ جانتا تھا کہ پاکستان کو مالی سال دو ہزار تئیس میں چھبیس بلین ڈالر کا غیر ملکی قرض ادا کرنا ہے۔ لہٰذا پہلے سے ہی یہ بیانیہ بنا لوں کہ میرے نہ ہونے کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہو گیا ہے۔ چار جنوری کو تحریک انصاف کا معاشی وائٹ پیپر بھی اسی تناظر میں جا ری کیا گیا ہے۔ عمران خان کے بیانات کی وجہ سے ملک کے اندر اور باہر شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ لوگوں نے پیسہ انوسٹ کرنے کے بجائے سونا اور پراپرٹی میں لگانا شروع کر دیا۔بینکنگ چینل سے ریمیٹنس آناکم ہو گیا ہے۔ حکومت کو ماہانہ 30 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔مسلم لیگ ن ڈالر ایک سو پندرہ پر چھوڑ کر گئی تھی جو عمران خان نے ایک سو اسی پر پہنچایا۔ اسد عمر نے دو ہزار اٹھارہ میں کہا تھا کہ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر کم کرنا ہو گی۔ آج ڈالر کی گراوٹ اس پالیسی کا تسلسل ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش اور خواہش ہے کہ ملک دیوالیہ ہو جائے۔ لیکن اتحادی حکومت اور اداروں کی مسلسل کوششوں سے عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان کی مدد کے لئے قائل ہو چکے ہیں۔پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے تیار ہیں۔ شکر ہے ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے۔ اب عمران خان استعفوں کے ذریعے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ قوم کے سامنے ان کا چہرہ عیاں ہو چکا ہے۔ ریاست پر ان کا یہ وار بھی خالی جائے گا۔