حماقتوں کے اسیر

حماقتوں کے اسیر

بے رحم دل کی حماقتوں کے اسیر ہیں 
تبھی سرنگوں ہیں ندامتوں کے اسیر ہیں 
شب وصل عشق کی چاندنی کا غرور تھے 
وہی لوگ ہجر کی وحشتوں کے اسیر ہیں 
ایمپائر کی انگلی اُٹھنے سے قبل ہی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا بن کر اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچنے اور پھر ملک کے سیاہ سفید کے مالک بن جانے والے تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی کیا خوب گوناگوں خصوصیات کے حامل ہیں۔ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں عوام کو برملا بتاتے رہے کہ ملک کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھوں میں ہے،اسٹیبلشمنٹ انکی پشت پر ہے اور وہ جو چاہے کرسکتے ہیں۔ اسی طاقت کے زیر اثر اپنے امریکہ کے دورے کے دوران انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ جیل میں قیدمسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف پر عرصہ حیات تنگ کردینگے اور ان سے اے سی سمیت تمام سہولیات واپس لے لیں گے۔خیر انہوں نے یہ سہولیات کیاواپس لینا تھیں، آج نواز شریف ملک میں واپس آنے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں اور عمران خان کو پیشیوں اور مقدمات کا سامنا ہے۔ اقتدار نظر وں سے اوجھل اور اس کی یاد انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی۔اب ان کا کہنا ہے کہ وہ بے بس تھے، حکومت تو کوئی اور کر رہا تھا۔وہ کافی عرصہ سے لانگ مارچ کا راگ بھی الاپ رہے ہیں، لیکن دال ہے کہ گلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ایسے میں انکی فرسٹریشن بڑھتی ہی جارہی ہے،جو ان کے عوامی خطابات میں خاص طور پر عیاں ہے۔گویا
جو شاخ ٹوٹتی ہے،لچکتی ضرور ہے 
بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے 
 عمران خان کاکہنا ہے کہ جو بھی ان چوروں کو این آر اودے رہا ہے وہ اس ملک کا غدار ہے، اگر مجھ پر مقدمات بنائے اور جیلوں میں ڈالا تو میں زیادہ زور سے مقابلہ کرونگا۔اس سے قبل وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے یقینا انکا اشارہ کس کی جانب ہے،جاننا یا سمجھنا زیادہ مشکل تو نہیں۔ وہ جنہیں کہہ رہے، وہ بھی جانتے ہیں اور جن سے کہہ رہے ہیں، وہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ وہ کس سے نالاں ہیں۔ پہلا این آر او کس نے دیا تھا اور دینے والے کی پشت پر کونسا ادارہ موجود تھا؟ بھلا یہ حقیقت کس سے پوشیدہ ہے۔ یقینا آپ بھی سمجھ چکے ہونگے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو اور ڈیزل جیسے خطابات سے نوازنے کے بعد نیوٹرل کو پہلے جانور اور اب اسے ملک کا غدار جیسے القابات سے نوازنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرر ہے۔ رہی مقابلہ کرنے کی بات تو کچھ عرصہ قبل ایک جج کے خلاف بیان دینے کے بعد جس طرح وہ توہین عدالت کی کاروائی سے بچنے کے لئے معافی مانگنے انکے دفتر پہنچے، اس نے انکی بہادری کا سارا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا۔ صحیح کہتے ہیں کہ بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جس کو اپنی زبان پر کنٹرول ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ اسے کس وقت کیا کہنا ہے۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے کسی غلط اور غیر ذمہ دارانہ بیان سے معاشرے میں کیا انتشار پھیل سکتا ہے۔ لاکھوں گھروں سے لیکر کروڑوں نوکریوں تک کے جھانسے کے بعد عوام کو امریکی سازش کا چورن بیچنے تک عمران خان نے جس طرح یو ٹرن پر یوٹرن لیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔وہ تو بھلا ہو آڈیو لیکس کا جس سے عوام میں یہ عقدہ کھلا کہ امریکی سازش امریکہ میں نہیں بلکہ خود وزیر اعظم ہاؤس پاکستان میں تیار ہوئی اور تیار کرنے والوں میں مبینہ طو ر پر خود اس وقت کے وزیر اعظم اور انکے رفقاء ملوث ہیں۔ گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی سعی میں جس طرح ملکی مفادات کو داؤ پر لگایا گیا وہ بھی اپنی نظیر آپ ہے۔ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ کیس اور سب سے بڑھ کر آڈیو لیکس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال اس امر کی غمازی کر رہی ہے کہ ریاستی ادارے کسی بھی وقت عمران خان اور انکے قریبی رفقاء پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ عمران خان اس صورت حال سے خائف اور پریشان نظر آتے ہیں۔وہ اسے روکنے کے لیے جلد از جلد لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں۔لیکن انہیں تاحال صورت حال اسکے موافق نہیں لگ رہی۔اطلاعات ہیں کہ لانگ مارچ میں جان ڈالنے کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے ایک بار پھر رابطہ کیا گیا ہے۔ تاہم طاہر القادری سرِ دست اسکے لیے تیار یا رضامند نظر نہیں آتے۔ کچھ بھی کرنے سے قبل انہوں نے عمران خان کے سامنے اپنے خلاف ایک درجن کے لگ بھگ مقدمات فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ رکھا ہے۔ ان میں سے کچھ مقدمات میں وہ اشتہاری بھی ہیں۔عمران خان کی ہدایات کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کو ان مقدمات کو جلد از جلد ختم کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ان دنوں طاہر القادری کے وکلاء اعلیٰ پولیس افسران سے اس ضمن میں ملاقاتیں کررہے ہیں۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے ماڈل ٹاؤن کیس سمیت مسلم لیگ نواز کی قیادت بالخصوص رانا ثناء اللہ اور رانا مشہود کی گرفتاری کو عمل میں لانے لیے بھی آئی جی پنجاب سے ملاقات کی ہے۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اسکے اتحادیوں کی پنجاب سمیت چا ر صوبوں میں حکومتیں ہیں اور اگر وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطاء بندیال کے کچھ عرصہ قبل دیے جانے والے مشورے پر عمل کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں واپسی کرلیں تو وہ نہ صرف عوام کی زیادہ موٗثر انداز میں خدمت کرسکتے ہیں بلکہ پی ڈی ایم کی ایک انتہائی کمزور حکومت کو ٹف ٹائم بھی دے سکتے ہیں۔ تاہم اگر اب بھی احتجاجی موڈ ہی میں رہیں گے تو آپ بخوبی اندازہ لگا لیں کہ وہ اگر انہیں اقتدار مل بھی جائے تو وہ کیا کرلینگے۔ ملک کی معیشت ڈوبی ہوئی ہے اور چار کروڑ کے لگ بھگ لوگ بدترین سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہیں۔ ان کی املاک اور مال مویشی برباد ہوچکے ہیں۔ان کی بر وقت آباد کاری ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس ضمن میں عمران خان ہوں یا وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی آپکو کہیں نظر نہیں آتے۔چند رو ز قبل پنجاب کے درویش صفت دھیمے مزاج کے حامل ہنس مکھ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے گورنر ہائس لاہور میں منعقدہ تقریب میں سیکرٹری جنرل مسلم ورلڈ لیگ ڈاکٹر محمد عبدالکریم العیسی اور سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کے ہمراہ دوست ممالک اور مسلم ورلڈ لیگ کی جانب سے بھیجے گئے امدادی سامان کی ایک بھاری کھیپ کو سیلاب زندگان کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ اپنا سارا وقت سیاسی محاذ آرائی کو بام عروج پر پہنچانے کے بجائے اگر عمران خان،پرویز الٰہی اور انکے رفقاء سیلاب زدگان کی مدد کے لئے انکے پاس گزارتے تو یقینا اگلا جنرل الیکشن تو کیا اگلے کئی جنرل الیکشن میں انہیں شکست دینا پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لیے ممکن نہ رہتا۔ایسے میں وفاق اور پنجاب میں جاری رسہ کشی کے باعث محکمہ پولیس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں سنگین جرائم کے گراف میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔اس کے برعکس اعلیٰ پولیس افسران اپنی پوسٹنگ بچانے اور پر کشش پوسٹیں حاصل کرنے کی جستجو میں اپنے سیاسی آقاؤں کے گرد چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں