علم کی دولت سے محروم بچے

Rana Zahid Iqbal, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

خواندگی کے عالمی دن کے موقع پر محکمہ تعلیم سندھ اور جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2 کرو ڑ 2 لاکھ بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ 60 لاکھ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہو سکے ہیں۔لاکھوں بچوں کا تعلیم سے دور ہونا لمحہ فکریہ ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار صحت مند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی وجہ سے ممکن ہے۔ نوجوان اور تعلیم لازم و ملزوم ہیں۔ علم افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور سیرت و کردار کی تعمیر کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور مستقبل کی منصوبہ بندی لازم و ملزوم ہیں۔ سنہرے مستقبل کے خواب ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہد حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا ہے۔  
تعلیم صرف معاشی پہلو کے لئے ضروری نہیں ہے بلکہ یہ تہذیب اور تربیت بھی مہیا کرتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان ہی اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکتا ہے۔ تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کی کردار سازی میں اہم رول ادا کرتا ہے اور پھر اس کے ذریعے ایک بہترین معاشرہ عمل میں آتا ہے۔ کسی بھی دور میں علم کی افادیت اور روحانیت سے 
انحراف نہیں کیا جا سکتا اور تعلیم ہمیشہ اس معاشرے کی زندہ دلی کا ثبوت دیتی ہے جہاں یہ تعلیم یافتہ نوجوان ہوں۔ دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی میں وہاں کی تعلیمی پالیسی کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ان ممالک میں بالخصوص بنیادی تعلیم کو مستحکم کرنے کے لئے مسلسل انقلابی اقدامات بھی کیے جاتے رہے ہیں اور تغیر زمانہ کے تقاضوں کو کماحقہئ پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں تعلیمی پالیسیاں اگر بنیں تو بھی ان کے نفاذ کی ایماندارانہ کوشش نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تجربوں کے دور سے ہی گزر رہے ہیں۔کیا ہم پڑھے لکھے ہیں؟ کیا ہم معاشرے کے ذمہ دارفرد ہیں؟ اور ایسے سوالات تو پیدا ہوں گے ہی جب کروڑوں بچے اسکولوں کی شکل ہی نہیں دیکھیں گے۔ کسی بھی معاشرے کے لئے اس کی اولین ترجیح اور ضرورت تعلیم ہے جو اس قوم کے مہذب ہونے کی دلیل مانی جاتی ہے۔ مشہور مؤرخ ایچ جی ویلز لکھتا ہے " دنیا کا سب سے اچھا سیاسی اور سماجی نظام مسلمانوں کے پاس تھا اور اس کی وجہ سے ان کو غلبہ حاصل ہوا"۔
تعلیم زندگی کے لئے تیاری نہیں بلکہ بذاتِ خود زندگی ہے۔ ایک انسان اس وقت تک معاشرے کے لئے مفید نہیں بن پاتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو۔ پڑھی لکھی ماں ہی بہترین معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتی ہے۔ یہ وہ رٹے رٹائے بیانات ہیں جو پبلک سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر تک ہر صاحبِ اختیار و اقدار کی زبان پر ہوتے ہیں۔ لیکن موجودہ رپورٹ اس تمام صورتحال کی نفی کر رہی ہے۔ حکومتی اجلاسوں، جلسوں اور این جی اوز کی بڑے بڑے ہوٹلوں میں تعلیمی کانفرنسز تک ہر مقرر جب بولتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر ملک میں تعلیمی بد حالی کا کوئی غم خوار ہی نہیں۔ لیکن افسوس تعلیمی پسماندگی کے درد میں ڈوب کر کی جانے والی یہ تمام باتیں صرف لفاظی تک محدود ہیں۔ عملی کوششوں سے ان کا دور دور تک کا کوئی رشتہ نہیں۔ کسی کو عملاً اس کام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، صرف فوٹو سیشن کی حد تک بڑی جد و جہد ہو رہی ہے۔
جب ملک کی ترقی اور خوشحالی میں پڑھے لکھے لوگوں کا کردار تسلیم کیا جاتا ہے تو یہ بھی مان لیا جانا چاہئے کہ مہذب معاشرے کی تکمیل میں ہر شخص کا تعلیم یافتہ ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں غربت اور مہنگائی کی وجہ سے والدین اپنے بچوں سے تعلیم کی بجائے مزدوی کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں والدین کو رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کس طرح حصولِ تعلیم سے ان کے بچے بہتر انداز میں گھر چلا سکتے ہیں اور غربت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان بھی چھوٹ سکتی ہے۔ جس قوم کے 2 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہوں گے تو پھر جدید دور میں داخل ہونے کی بات محض سراب ہی سمجھی جا سکتی ہے۔ تعلیمی نظام کی بہتری کی صورت تو یہی ہو سکتی ہے کہ اس کے ہاں کے تمام بچے اسکولوں کا رخ کریں۔ موجودہ حکومت تعلیمی بہتری کی بڑے زور شور سے بات تو کرتی ہے لیکن ابھی نتائج کا انتظار ہے۔