پاکستان کی سنی گئی ، ترقی کا 12 سالہ منصوبہ تیار

پاکستان کی سنی گئی ، ترقی کا 12 سالہ منصوبہ تیار
کیپشن: image by facebook

اسلام آباد : سیاسی استحکام اور حکومت کو اپنی پالیسیاں بنانے اور پھر عمل درآمد کروانے کے لیے کم از کم دس پندرہ سال درکار ہوتے ہیں۔ اگر پائیدار ترقی کے ثمرات کو دیکھنا ہو تو پھر ایک ہی پالیسی کے تسلسل کے لیے 12 سے 15 سال چاہیے ہوتے ہیں۔

اسی لیے ہانگ کانگ ،چین اورملائشیا ترقی کر گئے کہ وہاں ایک ہی حکومت کو اپنی معاشی پالیسیاں 10 سے 15 سال چلانے کا موقع ملا۔ لگتا ہے کہ قدرت نے بالآخر پاکستان کی بھی سن لی ہے اور اب پائیدار ترقی کا 12 سالہ منصوبہ سامنے آ رہا ہے جس میں ادارہ جاتی طور پر ایک ہی معاشی پالیسی کو ایک جیسی سوچ والی قیادت چلائے گی اور یوں ملک میں پائیدار ترقی و استحکام دونوں ممکن ہو جائیں گے۔

جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور جنرل فیض حمید کی آئی ایس آئی میں تقرری کو پائیدار ترقی کے اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال کو روکنے کے لیے تسلسل کی پالیسی کو اپنایا گیا ہے۔

جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع و تسلسل سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور سرمایہ کاری کے فروغ میں مدد ملے گی۔ جنرل باجوہ 2022 میں جب چھ سال آرمی چیف رہنے کے بعد ریٹائر ہوں گے تو پاکستان ایک مستحکم ملک بن چکا ہو گا اور ان کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے ان کے قریبی ترین ساتھی جنرل فیض حمید چار سینئر ترین جرنیلوں میں شامل ہوں گے اور اگر انھیں بھی اسی طرح 6 سال یعنی 2028 تک بطور اگلے چیف آف آرمی سٹاف اپنی پالیسی تسلسل سے جاری رکھنے کا موقع ملتا ہے تو پاکستان بھی ملائشیا، ہانگ کانگ اور چین کے ماڈل کی طرح فائدہ اٹھا کر اورترقی کے بارہ سال گزار کر نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو چکا ہوگا۔

ماضی میں سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے پائیدار ترقی، معاشی تسلسل اور سیاسی استحکام کا دس سالہ ماڈل بنایا اورپھر اسے چلایا، منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنائے ، صنعتیں لگائیں، معاشی شرح نمو میں اضافہ کیا۔ وہ ملک کو ملائشیا اور جنوبی کوریا کی سطح پر لے ہی جانے والے تھے کہ سیاسی عدم استحکام نے ان کا دھڑن تختہ کر دیا۔

دوسری دفعہ اس ماڈل کو ذرا مختلف طریقے سے مذہبی رنگ دیکر جنرل ضیاء الحق نے 11 سال چلانے کی کوشش کی۔ 11 سالہ تسلسل اور امریکہ سے ڈالروں کی بارش نے معاشی استحکام میں اضافہ کیا مگر انھیں بھی سیاست لے ڈوبی، نہ بھٹو کی پھانسی ہضم ہو سکی اورنہ افغانستان کی جنگ میں اپنے مقاصد کی تلاش نے انھیں فائدہ دیا۔

تیسری دفعہ جنرل پرویز مشرف بھی تسلسل و استحکام کا روشن خیال ماڈل لے کر آئے۔ امریکا سے دوستی اور افغان طالبان سے لڑائی کے بدلے میں انھیں عالمی امداد تو بہت ملی مگر سیاسی استحکام انھیں بھی نصیب نہ ہوا۔ عدلیہ تحریک اور نواز شریف و بینظیر اتحاد نے بالآخر انھیں اقتدار سے فارغ کر دیا۔

ایوب، ضیاء اور مشرف کے تسلسل ماڈل میں ایک خرابی تھی کہ وہ مارشل لا کے نام پر ملک کو پٹری پہ ڈالنا چاہتے تھے مگر آئین اور جمہوریت کو فارغ کر کے سیاسی استحکام اور معاشی تسلسل رکھنا مشکل تھا اور آج بھی ہے۔ اسی لیے و ہ تینوں اس میں ناکام ہوئے۔

اب شاید ماڈل یہ ہے کہ آئین اور جمہوریت چلتے رہیں، عدلیہ، پارلیمان اور کابینہ کام کرتے رہیں مگر اصل تسلسل اور استحکام پیچھے بیٹھنے والے فراہم کریں گے۔ آئین، جمہوریت عدلیہ کی موجودگی میں معاشی تسلسل کو یقینی بنانا اس نئی مشق یا کوشش کا اصل مقصد ہوگا۔