طالبا ن کی آ مد اور نئی صو رتِ حال

Dr Ibrahim Mughal, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

دنیا کی جد ید تر ین ٹیکنا لو جی، دنیا کا اکلو تا طا قتور ترین ملک، اپنے رعب کی بنا پر دنیا بھر کی حمایت سمیٹے ہو ئے، اپنے نیچے تین لا کھ جد ید تر ین سامانِ حرب سے آ را ستہ فوجی لئے ہوئے محض پچھتر ہزار طالبان سے یو ں ہا ر کر بھا گا کہ ہا رنے کا کو ئی بہا نہ تک نہ تراش سکا۔ دنیا بھر میں اس پر انگلیا ں تو اٹھا ئی جا رہی ہیں، مگر سب سے زیا دہ اس پہ انگلیاں اس کے اپنے ملک وا لے ہی اٹھا رہے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ہو ا کیسے؟ تاہم لطف کی با ت تو یہ ہے کہ اس کا جواب بھی وہا ں کے صدر مسٹر جو با ئیڈن نے خو د ہی دیا۔ اور بالکل ٹھیک دیا۔مسٹر با ئیڈن کا کہنا تھا کہ ہم فو جیو ں کو بہترین ہتھیا ر اور بہترین سہو لیات تو دے سکتے ہیں، لیکن لڑنے کا جذ بہ نہیں دے سکتے۔ تو ان کے جو اب سے ایک با ر پھر ثا بت ہو تا ہے کہ جنگ ہتھیا رو ں کے زور پر نہیں، بلکہ جذ بے کے زور پہ جیتی جا تی ہے۔ بہر حا ل اگر وطنِ عز یز پا کستان کی بات کر یں تو تسلیم کر نا پڑے گا کہ اس سارے کھیل میں ہما ری پا لیسی انتہا ئی متواز ن رہی۔ حال ہی میں افغانستان میں نئی پیش رفت اور پاکستان اور خطے پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز بلائے گئے قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس کے اعلامیے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان افغان مسئلے کے ایسے جامع سیاسی تصفیے کے لیے پُرعزم ہے جس میں تمام افغان گروپوں کی نمائندگی ہو۔ قومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان میں تمام جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام اور تمام افغان دھڑوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کریں اور یہ امر یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی دہشت گرد گروپ افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے افغان جامع سیاسی تصفیے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری اور تمام افغان فریقوں کے ساتھ کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔ افغانستان کی پیش رفت پر ہمسایہ ممالک کے جو تاثرات سامنے آئے ہیں اس میں یہ واضح ہے کہ ان سبھی ممالک نے اس تازہ پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے افغان صورت حال میں ایک امکان کے طور پر لیا گیا ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے سے قبل چین کی جانب سے افغانستان کے ساتھ دوستی اور مشترکہ تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ ایران کی جانب سے بھی ایسے بیانات آئے ہیں جن میں افغانستان میں امن اور استحکام کی امید کا اظہار کیا گیا جبکہ روسی وزیرخارجہ نے بین الافغان مذاکرات میں افغان حکومت کی غیرسنجیدگی کو موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے افغان سیاسی، مذہبی اور نسلی گروہوں کی شراکت سے مسئلے کا حل تلاش کرنے پر 
زور دیا۔ افغانستان کے قریب ترین ہمسایہ ممالک کے ان تاثرات سے یہ امر واضح ہے کہ طالبان کو سیاسی اور عسکری حقیقت کے طو رپر قبول کیا گیا ہے۔ تاہم ان حالات نے سبھی فریقوں پر ذمہ داریوں کے بوجھ میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ کابل پہنچ جانا طالبان کے لیے حکمت عملی کے اعتبار سے یقینا اہم ہوگا مگر افغان صورت حال میں خود کو منوانے کی قابلیت حاصل کرنے کے لیے انہیں سیاسی ہم آہنگی کے صبر آزما مراحل سے گزرنا ہوگا۔ افغانستان چالیس برس سے خونریزی اور عدم استحکام کا مسلسل ہدف ہے اور یہ موقع اس بدترین دور کا خاتمہ یقینی بناسکتا ہے بشرطیکہ سبھی دھڑے اس سلسلے میں مخلص جذبے کے ساتھ کوشش کریں۔ افغان دھڑوں میں اختلافات کی نوعیت ایسی نہیں کہ انہیں نئی پہل سے روکتی ہو۔ بہت سے اختلافات محض دھڑے بندی کا نتیجہ ہیں۔ ان کی تہہ میں نہ کوئی خالص نظریاتی مسئلہ ہے نہ سیاسی، لسانی یا ثقافتی اختلاف۔ چنانچہ افغان دھڑے بات چیت اور امن عمل کی شروعات کی بہترین پوزیشن میں ہیں۔ ایک تذبذب ضرور ہے کہ دہائیوں تک جس فریق کے خلاف ہتھیار اٹھائے اس سے سلسلہ جنبانی کس طرح شروع کریں۔ مگر یہ ایسی چٹان نہیں کہ جسے سر کرنا اس قدر مشکل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان آپسی بات چیت کے سلسلے کا آغاز کرنے کے اس وقت جتنے قابل ہیں، ماضی میں کبھی نہ تھے۔ یہ موقع افغانوں کی تاریخ کا ایک نایاب موقع ہے اور یہ کوئی آسانی سے میسر نہیں آیا۔ اس کے پیچھے چالیس برس کی شورش ہے۔ اس لیے افغانستان کے سبھی ہمسایہ ممالک بھی اس موقع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے طالبان سمیت تمام افغان دھڑوں پر زور دے رہے ہیں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ افغانستان کے عوام نے پچھلے چار عشروں کے دوران بے پناہ مصائب کا سامنا کیا ہے۔ بنیادی سہولتیں، انسانی حقوق، جینے کا حق، معاشی نمو کے مواقع اور دنیا میں متمدن او رمہذب قوم کے طور پر پہچان، افغان عوام کے لے یہ سبھی صورتیں نایاب تھیں۔ اس خطے میں کسی اور ملک کے عوام کو اس درجے کے مصائب کا سامان نہیں کرنا پڑا۔ اب ضروری ہے کہ افغان شہریوں کی ان محرومیوں اور اذیتوں کا خاتمہ ہو۔ انہیں پُرامن ماحول میں جینے اور ترقی کے مواقع میسر آئیں۔ ایسا ممکن ہو تو قوی امید ہے کہ افغان عوام جو دو، تین نسلوں سے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں میدان جنگ میں جھونکتے رہے ہیں وہ تعمیر اور تخلیق کے میدانوں میں اپنے جوہر دکھائیں اور اپنے ملک اور اس خطے کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔ ایسا ہونا یقینی طور پر ممکن ہے مگر اس امکان کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ افغان صورتحال میں وہی سیاسی، عسکری اور عالمی تعلقات کے لحاظ سے برتر پوزیشن میں ہیں؛ چنانچہ اس لیے اس پیش قدمی کی ذمہ داری بھی انہی پر ہے کہ وہ دیگر دھڑوں کو ساتھ لے کر چلیں اور افغانستان کی سیاست کو فی الواقع ایسا گلدستہ بنائیں جس میں ہر رنگ کا پھول یکجا ہوکر تنوع اور حسن میں اضافے کا سبب بنے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ افغانستان میں صرف امن کی ارزانی ہے ورنہ اس سرزمین کے معدنی، جغرافیائی اور انسانی وسائل میں کوئی کمی نہیں۔ امن کا قیام ممکن ہوجائے تو براعظم ایشیا کا یہ اہم ملک دنیا کے اس حصے میں ترقی کا سنگم بن سکتا ہے۔ خشکی سے گھرا افغانستان اپنے چاروں اطراف کے علاقوں کے لیے بہترین تجارتی راہداری بننے کے قابل ہے۔ اَن گنت معدنی وسائل اور وسیع رقبہ اگر زرعی مقاصد کے لیے بروئے کار آسکے تو افغانستان بے پناہ ترقی کرسکتا ہے۔ چار عشروں کے مسلسل انتشار نے ان امکانات کی جانب افغانوں کا دھیان ہی نہیں جانے دیا۔ اندھیر نگری میں تعمیر کے مراحل ترجیح قرار نہیں پاسکتے۔ مگر اس وقت افغان تاریخ کے اس دوراہے پر ہیں جہاں ان کے پاس خود کو بدلنے اور ماضی سے تعلق منقطع کرنے کا بہترین موقع ہے۔