پی ایم سی کی ناقص پالیسیاں، میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی ہزاروں سیٹیں خالی رہ گئیں

پی ایم سی کی ناقص پالیسیاں، میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی ہزاروں سیٹیں خالی رہ گئیں
سورس: فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

لاہور: پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی ناقص پالیسیوں کے باعث پاکستان بھر میں پہلی بار میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی تقریباً 6 ہزار سیٹیں خالی رہ گئیں۔ اس وجہ سے پی ایم سی اب خالی سیٹ پالیسی اناؤنس کر رہا ہے جس کے تحت سرکاری کالجز میں 50 فیصد انٹری ٹیسٹ اور 50 فیصد انٹرمیڈیٹ کے نمبر کا فارمولا بنایا گیا ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سرکاری اور نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی کئی دہائیوں پر محیط تاریخ میں اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں سیٹیں خالی نہیں رہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ غلطیوں کے باعث پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) یہ تمام سیٹیں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے جن پر مستقبل میں قابو پاتے ہوئے اس طرح کی صورتحال سے بچا جا سکتا ہے۔ 
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایم سی کی جانب سے انٹری ٹیسٹ کا پراسس 14 جون کو شروع ہوا جو 4 ماہ بعد 11 اکتوبر کو مکمل ہوا جبکہ کورونا وائرس کے باعث پاکستان میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات اور ان کے نتائج بھی تاخیر کا شکار ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ میں انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ 27 دسمبر کو مکمل ہوا اور مالاکنڈ میں 20 جنوری کو انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ جاری کیا گیا۔ 
ملک بھر میں سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں پہلے ایڈمشن ہوتے ہیں اور اس کے بعد پرائیویٹ کالجز اپنے داخلے شروع کرتے ہیں۔ رواں سال بھی کونسل کی طرف سے یکم جولائی کو پرائیویٹ کالجز میں ایڈمیشن شروع کرنے کا نوٹس جاری کردیا گیا جبکہ سرکاری کالجوں نے اپنے ایڈمیشن دسمبر میں شروع کئے۔ سرکاری کالجز میں داخلے بند ہونے کی تاریخ 10 جنوری مقرر کی گئی لیکن یہ عمل 30 جنوری تک جاری رہا جس کے باعث پرائیویٹ کالجز میں داخلوں کا عمل شروع نہ ہو سکا۔ 
اسی طرح پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی جانب سے پی ایم سی سکالرشپ کا آغاز نومبر کے آخر میں کرتے ہوئے تمام طلباءکو کہا گیا کہ 31 دسمبر تک سکالرشپ کا اعلان کر دیا جائے گا اور کالجز کو بھی انتظار کرنے کا کہہ دیا گیا لیکن بعد ازاں یہ تاریخ 10 جنوری تک کر دی گئی۔ سرکاری کالجز بھی اس کے منتظر رہے اور داخلے لیٹ کر دئیے جس کے باعث پرائیویٹ کالجز کے داخلوں پر بھی اثر پڑا، ایک اور پالیسی نتائج کے منتظر طلباءکی بھی تھی اور نتائج کیلئے 10 فروری کی تاریخ رکھی گئی۔ 
سرکاری اور پرائیویٹ کالجز اس رزلٹ کے انتظار میں کنفیوژن کا شکار رہے جبکہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال انٹری ٹیسٹ پاس کرنے کے نمبر 60 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد کر دئیے گئے اور بہت سے طلبہ کو ان کے حق سے محروم کردیا گیا۔ طلباءکو سکالرشپ کے جھانسے میں لگا دیا گیا جس کی وجہ سے بچے انتظار میں رہے اور ان تمام مسائل کی سب سے بڑی وجہ بند کمرے میں بیٹھ کر پالیسیاں تشکیل دینے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ 
ذرائع کا کہنا ہے کہ پالیسیاں بناتے وقت سرکاری کالجز کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی پرائیویٹ کالجز کے ساتھ مشاورت کی گئی جس کے باعث موجودہ مسائل نے جنم لیا اور اب بادل نخواستہ خالی سیٹ پالیسی اناؤنس کی جا رہی ہے جس کے مطابق سرکاری کالجز میں 50 فیصد انٹری ٹیسٹ اور 50 فیصد انٹرمیڈیٹ کے نمبر کا فارمولا بنایا ہے جس کا مطلب پرانے طلبہ اور نئے طلبہ کی شدیدترین حق تلفی ہے جو کسی طور پر بھی میرٹ کے اصولوں کے خلاف ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی پالیسی کو بھانپ لیا تھا اور اپنے صوبے میں آئندہ ہونے والے تعلیمی مسائل اور صحت کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اپنے صوبے کے علاقائی معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی ترتیب دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سندھ بھر میں تقریباً تمام داخلے مکمل ہو چکے ہیں۔ 
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی ناقص حکمت عملی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کیلئے آج بھی بہت دیر نہیں ہوئی ۔ پی ایم سی تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملائے اور آئندہ کیلئے ایسی پالیسی بنائیں جس سے طلبہ کی حق تلفی نہ ہو اور انہیں بروقت اور میرٹ کے مطابق داخلہ مل سکے۔ 

مصنف کے بارے میں